زینب کو قتل کرنے والا ملزم اکیلا نہیں بلکہ کم از کم تین افراد ملوث ہیں
قصور: کم سن زینب قتل کیس میں تفتیشی ٹیمیں کڑیاں ملانے میں مصروف ہیں اور واقعے کی سنسنی خیز تفصیلات سامنے آئی ہیں تاہم تاحال قاتل قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔
ذرائع کے مطابق قصور میں زیادتی کے قتل ہونے والی 7 سالہ زینب کے کیس میں یہ اہم انکشاف ہوا ہے کہ بچی کو قتل کرنے والا ملزم اکیلا نہیں تھا بلکہ کم از کم تین افراد ملوث ہیں۔ سیکورٹی اداروں کو مزید سی سی ٹی وی فوٹیجز موصول ہو گئی ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ بچی کو لے جانے والے ملزم کے ساتھ اس کے ساتھی بھی موجود تھے۔
تحقیقاتی اداروں نے تین ملزمان کو حراست میں لے لیا ہے تاہم بچی کو لیجانے والے مرکزی ملزم کی گرفتاری تاحال باقی ہے۔ زینب کی ڈی این اے رپورٹ سے مزید حقائق سامنے آئیں گے۔ آخری ملزم کی گرفتاری کے بعد وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف میڈیا بریفنگ میں عوام کو تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
والدین کے اعتراض پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی جے آئی ٹی کے سربراہ کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی ارکان نے زینب کے گھر اور علاقہ کا دورہ کرکے شواہد اکٹھے کیے ہیں۔ زینب کے اہل خانہ کے مطابق آئی ایس آئی خود اس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔
تحقیقاتی اداروں نے واقعے کے روز زینب کے گھر سے نکلنے کے بعد گلی سے گزرنے والے 247 افراد کو مشکوک قرار دے کر واچ لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔ زینب کے گھر سے نکلنے کے بعد وہاں پانچ موبائل نمبر زیر استعمال تھے جن میں سے ایک مشکوک نمبر سے تین کالز کی گئیں، جب کہ سات بج کر پندرہ منٹ پر ایک نمبر سے مشکوک میسج کیا گیا۔ واقعے کی ایک اور فوٹیج بھی سامنے آئی ہے جس میں ایک مشکوک شخص زینب کے اغوا سے قبل محلے کے چکر لگاتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔
زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی جاری ہوگئی ہے جس میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی ہے۔ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا اور دونوں کلائیوں پر بھی کٹ لگے ہوئے ہیں۔ زینب قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے دونوں نوجوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی جاری ہوئی ہے جس کے مطابق مقتول محمد علی کو دو گولیاں لگیں۔
واضح رہے کہ قصور میں ہفتے کی شب 7 سالہ بچی زینب ٹیوشن جانے کے لیے گھر سے نکلی اور لاپتہ ہوگئی۔ چند روز بعد منگل کی شب کچرا کنڈی سے اس کی لاش ملی۔