بنگلہ دیش کیا کرنے جا رہا ہے-’قتل‘ کرنے کی تیاری مکمل کرلی، ایسا ظلم کہ غیر مسلم بھی چیخ اُٹھے

ڈھاکہ (مانیٹرنگ ڈیسک)میانمر کے روہنگیا مسلمان اپنی جان اور عزت بچانے کے لئے اپنے گھر اور کاروبار چھوڑ کر جدھر ممکن ہوا بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان میں سے ہزاروں سمندر میں غرق ہوئے اور لاکھوں بدترین صوبتیں کاٹ کر ہمسایہ ملک بنگلا دیش پہنچے، مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ اس مسلم ملک کی حکومت انہیں اپنے ہاں ٹھہرانے کی بجائے ایک ایسے جزیرے پر بھیجنے کا فیصلہ کر لے گی کہ جہاں ان کا مقدر موت کے سوا کچھ نہیں۔
دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت لاکھوں روہنگیا پناہ گزینوں کو جس جزیرے پر منتقل کرنا چاہ رہی ہے وہ محض آٹھ سال قبل سمندر میں نمودار ہوا، اور اکثر و بیشتر بدترین سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔ بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے اس منصوبے کے بارے میں جان کر اتنے خوفزدہ ہیں کہ اس جزیرے پر منتقل ہونے کی بجائے واپس میانمار جانے کو ترجیح د یں گے، جہاں سے موت کے خوف نے انہیں بنگلہ دیش آنے پر مجبور کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی حکومت کا یہ منصوبہ پہلی بار 2015ءمیں منظرعام پر آیا، لیکن گزشتہ ہفتے اس کے بارے میں ایک سرکاری ویب سائٹ پر جاری کئے گئے سرکلر نے پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بدھ کے روز بنگلہ دیشی وزیر خارجہ شہریار عالم نے بھی ایک بیان میں کہا کہ پناہ گزینوں کو تھینگار چار منتقل کیا جائے گا تاکہ ”انہیں بہتر خدمات مہیا کی جاسکیں۔“
انسانی حقو ق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں چار لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان مقیم ہیں۔ میانمر میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں گزشتہ سال اکتوبر سے لے کر اب تک 65 ہزار افراد سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں۔ جزیرے پر منتقلی کی خبر سن کر پناہ گزینوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم روہنگیا مسلمان کریم کا کہنا تھا ”ہمارے لئے میانمر انتہائی غیر محفوظ ہے۔ وہاں ہمیں کسی بھی وقت قتل کیا جاسکتاہے یا ہماری خواتین کی عصمت دری ہوسکتی ہے۔ کسی کو بھی محض اسے اس وجہ سے گرفتار کیا جاسکتاہے کہ وہ روہنگیا مسلمان ہے۔ اس کے باوجود ہمیں جزیرے پر منتقل کیا گیا تو میں اپنی بیوی اور چار بچوں کو لے کر دوبارہ میانمر جانے کو ہی ترجیح دوں گا۔ تھینگار چار جزیرے پر تو قابل کاشت زمین بھی نہیں کہ جہاں ہل چلا کر ہم کو ئی فصل اگاسکیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ جزیرہ سمندری لہروں کی زد میں رہتا ہے۔ ہم کسی بھی صورت ایسی جگہ پر نہیں جائیں گے۔“