بلی اور اونٹنی مارکہ، اقامہ اور پاناما مارکہ جمہوریت
کالم:-حسن نثار
خرافات، لغویات، توہم پرستی، جہالت صدیوں سے سائونڈ بیریئرز توڑے ہوئے انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر کر چکی۔ ان مہلک اور موذی ترین امراض کا صرف اور صرف ایک ہی علاج تھا۔۔۔ تعلیم، اپنے عہد اپنے عصر سے ہم آہنگ تعلیم۔ لیکن سازشی اشرافیہ نے طے کر رکھا ہے کہ ’’ووٹر‘‘ کو جانور کی سطح سے اوپر نہیں اٹھنے دینا، صرف اتنے فیصد کو ایجوکیٹ کرنا ہے جن سے روزمرہ کے کام چلتے رہیں ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ 2018میں سندھ کے کسی پیر کی پالتو بلی بھی مریدوں کی ’’عقیدت‘‘ کا مرکز بن جاتی۔ اس سے زیادہ شرمناک، غیر انسانی کام کیا ہو سکتا ہے کہ ’’اشرف المخلوقات‘‘ بلی کی قبر بنا کر وہاں چڑھاوے چڑھانے اور مرادیں مانگنے لگیں۔ یہ ساری کہانی دادو میں پیر گاجی کے سالانہ عرس پر سامنے آئی جو ہر سال 12,11اور 13فروری کو منعقد ہوتا ہے۔ پاکستان بھر بالخصوص بلوچستان، سندھ اور پنجاب سے ’’غیور باشعور عوام‘‘ عقیدت کے اظہار کے لئے آتے ہیں۔ گاجی شاہ کے مزار کے گدی نشین نے بتایا کہ پیر گاجی شاہ نے بیرونی قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان دی۔ اُن کی میت اونٹنی پر آئی تھی اور اُس اونٹنی کی قبر بھی اُن کے مزار کے قریب ہی موجود ہے اور عقیدت مند زائرین سانس بند کر کے اس اونٹنی کے مزار کے گرد بھی سات چکر لگاتے ہیں،جس سے ان کے من کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اونٹنی کے ساتھ ساتھ مرشد کی محبوب بلی کی قبر پر بھی عقیدتیں نچھاور کی جاتی ہیں۔ گدی نشین منظور کھوسو نے بتایا کہ کچھ لوگ کم عقلی، کم علمی کے سبب ’’بلی شریف‘‘ کی قبر کو سجدہ بھی کرتے ہیں اور منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے۔ گدی نشین صاحب کا کہنا ہے کہ گاجی شاہ جنات کے بادشاہ ہیں اور ذہنی امراض میں مبتلا افراد ہر سال یہاں تب تک دھمال ڈالتے ہیں جب تک بے ہوش نہ ہو جائیں کیونکہ بے ہوشی کے دوران ہی انہیں شفا ملتی ہے۔ کمال یہ کہ ساتھ ساتھ یہ کہانی بھی چلتی ہے کہ گاجی شاہ کوئی روحانی شخصیت نہیں تھا بلکہ اس کا اصل نام غازی کھوسو تھا جس کو سندھ کے کلہوڑا حکمران نے بلوچستان سے ملحق سرحد کی حفاظت کے لئے مامور کر رکھا تھا۔ غازی کھوسو خضدار کے بروہی قبیلہ کے ساتھ جنگ میں مارے جانے کے بعد یہاں دفن ہوا۔ ان مزاروں کے ساتھ کچھ اور کہانیاں بھی وابستہ ہیں لیکن اصل کہانی یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قدم قدم پر ہو کیا رہا ہے؟ کیسا اسلام؟ کیسی جمہوریت؟کبھی کیبلز پر چلنے والے مکروہ اور غلیظ ترین اشتہارات تو دیکھیں کہ دادو کیا لاہور بھی اسی قسم اور درجہ کی ’’روحانیت‘‘ میں غرق ہے جو شرک اور کفر سے بھی آگے کی کوئی شے ہے اور یہی وہ باشعور جمہور ہے جہاں سے جمہوریت پھوٹتی ہے، پھلتی پھولتی اور وہاں جا پہنچتی ہے جہاں عزت مآب چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’خدا نہ کرے کوئی چور اُچکا پارٹی صدر بن جائے۔ میں نہیں مان سکتا کوئی ڈکیت جماعت کا سربراہ بن کر حکومت کرے‘‘افسوس صد افسوس عزت مآب! حقیقت یہی ہے کہ جس معاشرہ میں صدیوں سے ’’چور اُچکا چوہدری تے غنڈی رن پردھان‘‘ اور ’’جتنا لچا اتنا اُچا‘‘ جیسے محاورے رائج ہوں، اونٹوں اور بلیوں کی قبروں پر منتیں مانگی جاتی ہوں، وہاں یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔ دن دہاڑے سرعام رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی پوچھا جاتا ہے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ انہی غیوروں، باشعوروں کے درمیان ہی بندہ یہ جرأت کر سکتا ہے کہ کیمروں کے سامنے دھڑلے سے پوچھے، ’’اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو اس سے کیا لینا دینا؟‘‘یہ سوال مہذب دنیا میں کسی قائد نے اپنے عوام سے پوچھا ہوتا تو وہ اس کو خراشوں میں تبدیل کر دیتے، یہاں غیوروں باشعوروں نے دندیاں نکالیں اور تالیاں بجائیں کہ اس بلی اور اونٹنی مارکہ جمہوریت میں یہی کچھ ممکن ہے۔خرافات، لغویات، توہم پرستی اور جہالت مل جل کر اسی قسم کی اقامہ پاناما جمہوریت کو جنم دے سکتی ہے جسے 70سال سے بھگت رہے ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں جائز، ناجائز، ظالم مظلوم، سچے جھوٹے، صحیح غلط میں تمیز کرنا مشکل ہو جائے اور مجرم منصفوں کو چیلنج کرتے دکھائی دیں۔ سبحان اللہ۔۔۔ جنرل ضیاء الحق کی پیداوار پی سی او کے طعنے دے رہی ہے، چھانگا مانگا کے موجد ہارس ٹریڈنگ کی باتیں کر رہے ہیں، ووٹروں کی تذلیل کرنے والے ووٹ کے تقدس کی مالا جپ رہے ہیں تو یہ سب کچھ اسی بلی اور اونٹنی مارکہ جمہوریت میں ہی ممکن ہے جس کی دوسری پہچان پانامے اور اقامے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ