بلوچستان، شمالی سندھ میں داعش کے شواہد ہیں، تھنک ٹینک
اسلام آباد: پاک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نے اپنی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ 2017 جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور قوم پرست عسکریت پسند ابھی بھی ایک مہلک خطرہ ہیں جبکہ داعش کی موجودگی کے واضح شواہد پائے گئے ہیں جس نے 6 مہلک حملوں میں 153 ہلاک کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی آئی تاہم ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ گروہ، قوم پرست عسکریت پسند خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں، خطرے کی بڑی علامت داعش کی بلوچستان اور شمالی سندھ میں موجودگی ہے جس نے بڑے حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔
گزشتہ سال پاکستان میں کل 370 دہشت گردانہ حملے ہوئے جس میں 815 افراد ہلاک ہوئے اور 1736 افراد زخمی ہوئے، بلوچستان اور فاٹا خاص طور پر کرم ایجنسی سال 2017 میں بالترتیب 288 اور 253 ہلاکتوں کے سبب حساس ترین علاقے شمار ہوئے، ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور ان جیسے مقاصد رکھنے والے گروہوں نے 58 فیصد حملوں کی ذمے داری قبول کی جبکہ 37 فیصد حملے قوم پرست عسکریت پسندوں اور 5 فیصد حملے فرقہ وارانہ دہشت گردوں نے کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کل 19 واقعات ہوئے اور ان میں71 افراد ہلاک جبکہ 97 زخمی ہوئے، حقائق اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے جس کے متعلق تاحال ابہام موجود ہے کہ اس پر عملدرآمد کس کی ذمے داری ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد موثر بنانے کیلیے اسے دوطرفہ حکمت عملی میں تقسیم ہونا چاہیے۔