بلند و بانگ دعوے اور ریلوے کی مخدوش حالت
کالم :- حسیب صدیقی ۔
پاکستان کا سب سے بڑا نقل و حمل کا ذریعہ پاکستان ریلویز جو اس وقت دن میں لگ بھگ لاکھوں شہریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذریعہ ہے ۔ دو دہائیاں قبل چاروں صوبوں میں کل ملا کے 1لاکھ 67ہزار690ایکٹرزکا مالک یہ محکمہ ملک کا سب سے مضبوط محکمہ تصور کیا جاتا تھا ۔قیام پاکستان کے وقت بھارت سے کروڑوں مسلمان مسافر پاکستان ریلویز کے ذریعہ ہی وطن عزیز میں ہجرت کر کے آئے تھے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ مخلص قیادت میسر ہوتے ہی اس محکمہ نے پروان چڑھنا شروع کیا ۔ پاکستان ریلویز انیسویں صدی میں قیام میں لائی گئی جب برصغیر پر برطانوی حکمرانوں کا راج تھا ۔1886میں چار مختلف کمپنیوں کو یکجا کر کے نارتھ ویسٹرن سٹیٹ کے نام سے جو ریل سروس شروع کی گئی تھی بعد میں وہی پاکستان ریلوے کہلائی ۔ پاکستان ریلویز ریاست کے اندر ہی ایک ریاست کی مانند ہے ۔ اپنے سکول ، اپنی کالونیاں، بجلی اور پانی کی سپلائی بھی ریلوے کے زیر اثر ہے ، اس کا ریونیو ڈیپارٹمنٹ الگ یہاں تک کہ اس محکمہ کی عدالتیں بھی الگ ہیں ۔ چند دہائیاں قبل مردان میں 251ایکٹرز پر محیط انجن بنانے کی فیکٹری لگائی گئی ۔ یہ کارخانہ بھاری لاگت اور جاپان کے اشتراک سے شروع کیا گیا ۔ یہاں پر 2000اور 3000ہارس پاور کے انجن بنا کر پاکستان ریلویز کے حوالے کیا گئے ۔ الیکٹرک انجن بنائے گئے اور پرانے انجن ٹھیک کر کے دوبارہ پٹریوں پر دوڑائے گئے ۔ اس کے علاوہ خانیوال میں سلیپر بنانے کی فیکٹری ، راولپنڈی میں ریلوے کیرج فیکٹری اور مغل پورہ ورکشاپ ان تمام ورکشاپس کی کارکردگی کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان ریلویز کا 65ٹریک زائد المیعاد ہے ۔کراچی تا پشاور روٹ پر موجود مین ٹریک انتہائی بوسیدہ اورسگنل نظام انتہائی ناقص ہے ۔ جس کی وجہ سے آئے دن ٹرین حادثہ جیسے واقعات پیش آ رہے ہیں جس میں سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔اربوں روپے سالانہ کے باوجود اسطاً 147ٹرین حادثات پیش آتے ہیں جو سینکڑوں انسانی جانیں نگل جاتے ہیں۔ اس تمام کے باوجود ریلوے حکام پاکستان ریلویز کو دنیا کی محفوظ ترین ریلویز میں سے ایک گردانتے ہیں ۔ 2010میں حکومت میں جانب سے آٹو میٹک سگنل سسٹم کی تنصیب کا اعلان کیا گیا مگر پہلے مرحلہ میں تقریباً17ارب کی لاگت سے لودھراں تا شاہدرہ مکمل کیا گیا ۔ اس سسٹم کے مطابق ایک ہی ٹریک پر متعدد ریل گاڑیاں مناسب فاصلے پر با حفاظت سفر کر سکتی ہیں لیکن 7سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود بھی اس منصوبہ پر 50فیصد سے زائد کام نہیں ہو سکا ۔ اس منصوبہ کے تحت ریلویز سٹیشنز کو کمپیوٹرائزڈ پر کیا جانا تھا تاکہ سٹیشنوں پر کھڑی گاڑیوں کے آپس میں ٹکرانے کے واقعات میں کمی لائی جا سکے ۔ سگنل سسٹم کو فی الفور ٹھیک کرنا اس لئے بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ ہر حادثے یا سانحے کی وجہ کسی نہ کسی طرح سے ریلوے سگنل کو ہی گردانا جاتا ہے ۔پاکستان ریلویز کی حالیہ سالانہ کتابچہ کے مطابق ریلویز کے پاس اس وقت 460لوکو موٹیو انجن موجود ہیں جبکہ حقائق کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ نصب سے زائد انجن اب پٹریوں پر چلنے کے قابل بھی نہیں ۔ حال ہی میں 25ارب روپے کی لاگت سے امریکہ سے جدید 4500ہارس پاور کی طاقت کے 55انجن خریدے گئے ہیں جن میں 7انجن پاکستان کے حوالے کر دئے گئے ہیں جو صرف اور صرف مال بردار گاڑیوں کو کھینچنے کیلئے استعمال کئے جائیں گے ۔ 2011کے عام انتخابات کے بعد ریلوے کا محکمہ مسلم لیگ ن کے راہنما خواجہ سعد رفیق کے سپرد کر دیا گیا وہ آج کل وفاقی وزیر ریلوے ہیں مگر خواجہ سعد رفیق بھی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس محکمہ کی حالت بہتر کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے دور حکومت میں چھوٹے بڑے 500سے زائد ریلوے حادثات دیکھنے میں آئے ہیں مگر ہمیشہ معاملہ کسی نہ کسی ملازم یا ڈرائیور پر ڈال کر اس کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ روایت ہے کہ اگر ایک بھی بڑا حادثہ پیش آ جائے تو وفاقی وزیر مستعفی ہو جاتا ہے ۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی یہ روایت موجود ہے مگر ہمارے ملک میں آج تک ایسی کوئی مثال دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ہمسایہ ملک بھارت کے محکمہ ریلویز کا پاکستان ریلویز کے ساتھ تقابلی جائز ہ لیا جائے تو شرمندگی اور ندامت کے سواء کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ 1950میں بھارت میں ریلوے لائن کی لمبائی 3133کلو میٹر جبکہ پاکستان میں ریلوے ٹریک کی لمبائی 12ہزار کلو میٹر تھی جبکہ آج بھارتی ریلوے ٹریک کی لمبائی 70ہزار کلو میٹر تقریباً اور پاکستان ریلوے ٹریک کی لمبائی 7ہزار7سو 91کلومیٹر ہے ۔ بھارت کے پاس 1950میں 842ریلوے انجن اور پاکستان کے پاس 862ریلوے انجن موجود جبکہ آج ہمارے 460ریلوے انجن میں نصف سے زیادہ قابل استعمال نہیں جبکہ بھارت ریلوے 9013انجن استعمال کر رہی ہے ۔ پاکستان ریلویز قریباً100مسافر ٹرینیں روزانہ چلاتا ہے جبکہ بھارت میں 12,617مسافر ٹرینیں جوکہ پاکستان ریلویز کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ ہیں ۔ہمارے ہاں ریلوے فیکٹریاں پرزہ جات کی عدم فراہمی کی بناء پر خراب انجن اور بوگیاں ٹھیک کرنے سے بھی قاصرہے جبکہ بھارتی حکومت اور بھارتی وزارت ریلوے نے ملک میں سولر انرجی اور ونڈ پاور سے چلنے والی فیکٹریاں نصب کر دی ہیں جو نہ صرف مرمت کا کام کرتی ہیں بلکہ نئی مسافر بوگیاں اور انجن بنا کر اپنے محکمہ کو تقویت بخش رہی ہیں ۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اپنے محکمہ سے زیادہ اپنے قائدین کی سیاست کو سہارا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ کسی بھی حادثہ والی جگہ پر وفاقی وزیر ریلوے یا محکمہ کے کسی اعلی افسر کی غیر موجودگی دیکھنے میں آتی تھی ۔ محکمہ کی وسیع و عریض اراضی پر عدم دلچسپی کی وجہ سے بااثر افراد قبضہ کر چکے ہیں جبکہ محکمہ ملازمین اور کرپٹ افسران اونے پونے داموں جگہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر محکمہ کے افسران اور حکمران اس محکمہ کی کارکردگی اور حادثات میں ایسے ہی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے رہے تو آنے والے سالوں میں یہ محکمہ اس بھی زیادہ مخدوش الحال ہو جائے گا اور پاکستان ریلویز بطور ’’ ڈیتھ ریلویز ‘‘ کے طور پر جانا جائے گا ۔