بدعنوان سیاسی مافیا پھر واپس آئے گی کیونکہ ۔۔۔
بدعنوان سیاسی مافیا نے جاتے جاتے کچھ ایسے اقدامات کیے , جن کا مقصد ذاتی سیاسی مفادات کا تحفظ تھا۔ پہلا اقدام نگران حکومت اکثریتی جماعت کی مرضی کی بنوائی گئی۔ ناصرالملک کی نگران حکومت کسی بھی اینگل سے غیرجانبدار نہیں لگتی۔ ناصرالملک کے نام پر پی پی پی اور پی ٹی آئی کاسمجھوتہ ورطہ حیرت میں ڈالنے کیلیے کافی تھا ,کیونکہ 2013 کے انتخابات میں موصوف کو منظم دھاندلی کے ثبوت ہی نہیں ملے تھے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح چوری چھپے کاغذات نامزدگی فارم میں سے راتوں رات آرٹیکل 62,63 سے متعلقہ شرائط حذف کردی گئیں , وہ ایک سنگین متنازعہ اقدام ہے۔ جب کاغذاتِ نامزدگی فارم بدلا گیا , پی ٹی آئی اور پی پی پی کی پراسرار خاموشی پر افسوس ہوا۔ حتٰی کہ جب ہائی کورٹ نے پرانا کاغذاتِ نامزدگی فارم بحال کرنے کا حکم دیا تو فواد چوہدری کا ردعمل چونکا دینے والا تھا۔ تیسرے یہ کہ پی ٹی آئی نے نگران وزیراعلیٰ کا نام فائنل کرنے کے مرحلے پر جس سیاسی ناپختگی کا ثبوت دیا , اس پر شدید تحفظات ہیں۔ جب لاہور ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی سے روکا تو نگران وزیراعظم ناصرالملک کی آشیرباد سے الیکشن کمیشن اور ایاز صادق معاملہ سپریم کورٹ میں لے گئے کہ حضور پرانا کاغذات نامزدگی فارم بحال کرنے کا انتظار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس طرح انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہوسکیں گے۔ گویا سیاست دانوں کو اس بات سے قطعی طور پر کوئی غرض نہیں کہ کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی کے بعد ہر چور , ڈاکو , لٹیرا ,قاتل , ریپسٹ , بدعنوان اور خائن بھلے ہی ایوانِ نمائندگان میں پہنچ جائے مگر عام انتخابات میں کسی طور کی تاخیر برداشت نہیں۔
حضور بتائیے کہ ایسی کیا قیامت ٹوٹنے کا احتمال تھا کہ25 جولائی کو عام انتخابات کی تاریخ پر عمل ناگزیر ہوگیا تھا۔ کاغذات نامزدگی فارم کی درستگی قومی مفاد میں تھی تو پھر بھلے ہی عام انتخابات مقررہ تاریخ پر نہ ہوتے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ اتنا شور اٹھتا۔ اصل میں مسئلہ 25جولائی کی تاریخ نہیں بلکہ اصل مسئلہ سیاست دانوں کے کالے کرتوت ہیں۔ جن پر پردہ ڈالنا ناگزیر تھا , بصورتِ دیگر سیاسی مافیا انتخابی عمل سے باھر ہوجاتی۔ یہ وہ اصل وجہ ہے جو سیاسی مافیا کے نمائندگان کو سپریم کورٹ لے گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جب لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا تو سخت مایوسی ہوئی۔
موجودہ سیاسی منظرنامے پر غور کیاجائے تو سب سے زیادہ افسوس پی ٹی آئی کے یوٹرنز اور ناقص فیصلوں پرہوا۔ 2جون 2014 کو عمران خان نے کہا تھا کہ "انتخابی نظام ٹھیک نہ ہوا تو عام انتخابات نہیں ہونے دیں گے ” مگر نگران حکومت کے ناموں کے چناو سے لے کر کاغذاتِ نامزدگی فارم میں تبدیلی تک سب کچھ ہوتا گیا مگر تبدیلی کے نعروں کے بے تاج بادشاہ عمران خان اور ان کی جماعت کے جملہ قائدین کوئی ایسا مؤثر کردار ادا نہیں کرسکے , جس کی توقع تھی۔ عام انتخابات سے قبل ہی اتنی شدید کوتاہیاں کرنے والی پی ٹی آئی نے عام انتخابات سے قبل ہی اپنے نعرۃ تبدیلی پر ایک خود کش حملہ کردیاہے۔
جن سیاست دانوں کو 25 جولائی کو ہر حال میں عام انتخابات ہی میں تمام مسائل کا حل نظر آرہا ہے وہ بھول رہے ہیں کہ دراصل اس رویے سے وہ خود ہی بے نقاب ہوگئے ہیں۔ عوام یہ جان چکی ہے کہ سیاست دانوں کو صاف وشفاف انتخابی عمل سے کوئی دلچسپی نہیں , بلکہ انہیں صرف اپنے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی فکر کھائے جارہی ہے۔ گویا ملکی مفاد پر ذاتی سیاسی مفادات غالب آچکے ہیں۔
تبدیلی کے دعوے داروں کے منہ میں آبلے پڑ چکے ہیں۔ سیاست دانوں کے چہروں سے نقاب اتر چکے ہیں۔ تبدیلی کے نعروں کا کھوکھلاپن واضع ہو چکاہے۔ ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 62,63کے حق میں اٹھنے والی صرف ایک ہی مؤثر آواز کی گونج ہرسو سنائی دے رہی ہے اور وہ جاندارآواز ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے آرٹیکل 62,63کے انتخابی عمل میں نفاذ کی ضرورت کو ہمیشہ اجاگر کیا اور آج بھی وہ تن تنہا اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہیں۔
کاغذاتِ نامزدگی فارم میں تبدیلی ملکی سیاسی استحکام کے خلاف سیاسی مافیا کی ایک خطرناک سازش ہے۔ نئے کاغذاتِ نامزدگی فارم نے سارے انتخابی عمل کو ایک ایسی لاحاصل مشق بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں وہی بدعنوان سیاسی مافیا ایک مرتبہ پھر پارلیمان پر مسلط ہوجائے گی اور سب سے زیادہ نقصان تبدیلی کے علمبرداروں کو ہوگا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کی علمبردار پی ٹی آئی اینے حالیہ غلط سیاسی فیصلوں کے سبب عام انتخابات کا پہلا مرحلہ ہار چکی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں پی ٹی آئی کرپٹ نظام کا حصہ بننا چاہ رہی ہے ؟؟؟ اگر اسی سیاسی کھیل کا حصہ بننا تھا تو تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا ؟؟؟ عمران خان کے مشیران پارٹی کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں۔عمران خان صاحب ہوش کے ناخن لیں , اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں , اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔