بحریہ ٹاؤن حادثہ پر خبر کا نہ آنا خبر نہیں !
سینٹرل میڈیا لسٹ پر 1612 اخبارات موجود ہیں جو اشتہارات کے لئے مطلوبہ معیار پورا کرتے ہیں ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ چھ سات یا زیادہ سے زیادہ بیس اخبارات جو ہاکروں کے پاس ہوتے ہیں اور اگر ان میں چند علاقائی اخبارات کو بھی شامل کر لیں تو اس کے علاوہ یہ باقی ساڑھے پندرہ سو اخبارات کہاں سے چھپتے ہیں اور ان کے قارئین کون ہیں ؟
پاکستان میں میڈیا کتنا آزاد ہے ؟اس کی ایک جھلک تو آپ نے بحریہ انکلیو اسلام آباد میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعہ سے دیکھ ہی لی ہو گی ۔جب اے آر وائی ٹی وی کے شو میں سٹیج گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں کے بارے میں میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ ہوا ۔کسی اخبارنے سنگل کالم خبر اور کسی چینل نے ایک ٹکر تک نہ دیا۔پاکستانی چینلوں پر چلنے والے چالیس کے قریب ٹاک شوز کے بڑے بڑے طرم خان اینکروں کے کانوں پر بھی جوں تک نہیں رینگی ۔مسئلہ یہ نہیں تھا کہ یہ حادثہ ایک ٹی وی چینل کے شو میں ہوا اس لئے باقی چینلوں نے اسے بھائی چارے کے طور پر بخش دیا ہو بلکہ مسئلہ تھا بحریہ ٹاؤن ، جو پاکستان کے بڑے ایڈورٹائزرز میں سے ایک ہے سالانہ اربوں روپے ٹی وی اور اخبارات کے مالکان کو اشتہارات کی مد میں دیتا ہے بلکہ بعض چینلوں کی تنخواہیں اور کچھ ٹی وی اینکروں کے کروڑوں کے معاوضے بھی بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے ذمہ ہیں ۔اس لئے خبر کیسے دی جائے ؟
ویسے تو پاکستان کے عوام بھی اب بخوبی سمجھنے لگے ہیں کہ صبح شام جو کچھ انہیں حالات ِ حاضرہ کے نام پر دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے یہ پورا سچ نہیں ہے بعض اوقات آدھا اور بعض اوقات بالکل بھی سچ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی جڑی ہوتی ہے کوئی نہ کوئی مفاد وابستہ ہوتا ہے ۔اس لئے اگر آپ ٹیکسیوں پرسفر کرتے ہوں تو ذرا کسی ڈرائیور سے ہی تبادلہ خیالات کر کے دیکھ لیں وہ سب ٹی وی چینلز اور ان کے اینکروں کا کچھا چٹھا کھول کے رکھ دے گا ۔کون کہاں بکا ہوا ہوا ہے ؟کس کا کیا مفاد ہے ؟یہ سب اب سربستہ راز نہیں رہا ۔ہاں اگر یہ سب کچھ نہیں جانتے تو صبح شام آزادی صحافت کا بھاشن دینے والے میڈیا مالکان نہیں جانتے ۔
پاکستان میں اخبار ات اور جرائد کتنے چھپتے ہیں ؟ یہ آپ انگلیوں پر گن کر بتا سکتے ہیں لیکن پچھلے دنوں حکومت پاکستان کے پرنسپل آفیسر راؤ تحسین علی خان( جو اب ڈان لیکس کی وجہ سے عہدے سے ہٹائے جا چکے ہیں )نے انگریزی روزنامہ ڈان کے میگزین کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ سینٹرل میڈیا لسٹ پر 1612 اخبارات موجود ہیں جو اشتہارات کے لئے مطلوبہ معیار پورا کرتے ہیں ۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ چھ سات یا زیادہ سے زیادہ بیس اخبارات جو ہاکروں کے پاس ہوتے ہیں اور اگر ان میں چند علاقائی اخبارات کو بھی شامل کر لیں تو اس تعداد میں شاید دس بیس کا اور اضافہ ہو جائے ۔پھر یہ باقی ساڑھے پندرہ سو اخبارات کہاں سے چھپتے ہیں اور ان کے قارئین کون ہیں ؟ اور حکومت انہیں کیوں کروڑوں اربوں کے اشتہارات جاری کر رہی ہے ؟
قومی اسمبلی میں کئے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ نواز حکومت نے پہلے تین سالوں میں پندرہ ارب روپے کے اشتہارات اخبارات اور چینلز کو دیئے ۔اگر مزید تفصیلات سامنے آتیں تو معلوم ہوتا کہ اس میں سے آدھی رقم ملی بھگت سے انہی اخبارات و جرائد کو دی گئی جن کی صرف اس وقت دو چار کاپیاں چھاپی جاتی ہیں جب انہیں اشتہارات ملتے ہیں ،دراصل یہ اخبارات و جرائد پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ اور منسٹری کے لئے سونے کی کانیں بن چکے ہیں ۔سنا ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت نے کچھ بہتری کی کوشش کی اور وہاں سو سے زائد ڈمی اخبارات کو میڈیا لسٹ سے نکال دیا جبکہ 126اخبارات کے ڈیکلر یشن منسوخ کر دیئے گئے یہ وہی اخبارات تھے جو صرف اشتہارات چھاپنے کے لئے چھپتے تھے لیکن اب بھی کے پی کے میں سو سے زائد اخبارات میڈیا لسٹ پر موجود ہیں ۔
یہ سرکاری اشتہارات میڈیا کو کنٹرول کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں ۔شام کو سرکاری ہرکارے ہر اخبار کے متعلقہ ایڈیٹر یا اشتہارات کے مینیجر کو فون کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں خبر لگانی ہے فلاں نہیں لگانی ۔جو ان کی نہیں مانتا اسے پھر اشتہار نہیں ملتے ۔لیکن ستم تو یہ ہے کہ ان کے آگے انکار کرنے والا ایک بھی نہیں ہے ۔سنا ہے ایک انگریزی اخبار ہے جہاں کا ایڈیٹر اب بھی پاور فل ہے ۔یہ وہی اخبار ہے جس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششیں آج کل ہو رہی ہیں ۔باقی اخبارات اور ان میں صف اوّل کے اخبارات بھی شامل ہیں جہاں اب ایڈیٹر نام کا کوئی عہدہ رہ ہی نہیں گیا بلکہ اب وہاں صرف بزنس مینیجرز ہیں جو مالک کو ہر روز کی بیلنس شیٹ دیتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل کا لائسنس اس کے مالکان کی سیکورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ۔ساتھ ہی اس کی نشریات بند ہو گئیں ۔اگلے روز عدالت نے اس فیصلے پر حکم ِ امتناعی جاری کرتے ہوئے نشریات بحال کر دیں ۔نشریات بحال تو ہو گئیں مگر کئی بڑے کیبل آپریٹروں کو نشریات چلانے سے پیمرا نے منع کر دیا ۔جس پر ایک دھمکی آمیز کال پیمرا کو موصول ہوئی جس کا متن ایک روز پہلے کے اخبارات میں شائع ہو چکا ہے ۔اس متن کو پڑھنے اور اسے اخبارات کے زینت بنانے تک یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل پیمرا میں اس چینل کا لائسنس کیوں منسوخ ہوا ؟ اور اب بحال کیوں ہوا ؟ کال کرنے والے کون ہیں اور دراصل یہ لڑائی کن بڑوں کے درمیان ہو رہی ہے ؟
اگر سیکورٹی کلیرنس کی بات ہو تو پاکستان میں شاید دو چار ہی چینل چل رہے ہوتے وگرنہ یہاں کے میڈیا مالکان کے ماضی اور حال سے کون واقف نہیں ۔کوئی قبضہ گروپ ہے اور کوئی کسی مافیا کا سرغنہ ،ایک نمبر کوئی نہیں سبھی کا کاروبار دونمبری کے گرد گھومتا ہے اور ا س کاروبار کو تحفظ دینے کےلئے میڈیا سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔حکومتوں کو بھی ایسے لوگ ہی چاہئے ہوتے ہیں جن کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہوں ۔
اس لئے بحریہ ٹاؤن کے واقعہ پر خبر کا نہ آنا خبر نہیں بلکہ خبر کا آ جانا خبر ہے اور یہ اعزاز بھی چالیس چینلوں اور ڈیڑھ ہزار اخبارات میں سے صرف ایک کے حصے میں آیا ہے اور وہ بھی اس واقعے کے دو ہفتے بعد ۔