ایم کیو ایم پاکستان یا لندن کی شکست؟

(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وائس آف کینیڈا
ایم کیو کیم کے امیدوار کامران ٹیسوری
کراچی کے صوبائی حلقے پی ایس 114 کے ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو شکست دی یا متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ایم کیو ایم لندن کو شکست دیکر اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھی موجودہ وقت دونوں ہی دعوے درست نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی نے ساڑھے 23 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کے کامران ٹیسوری 18 ہزار کے قریب ووٹ لے سکے۔ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ ن اور چوتھے نمبر پر تحریک انصاف کے امیدوار رہے۔
اردو بولنے والوں کے ووٹ بینک پر سیاست؟
بختاور اور آصفہ کی مخالفت، عرفان مروت کا راستہ مسدود
’ایم کیو ایم وہی جس کے قائد الطاف حسین ہیں‘
ایم کیو ایم پاکستان کے لیے لندن سے علیحدگی کے بعد یہ ضمنی انتخابات دوسری آزمائش تھے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم پاکستان نے صوبائی حلقے پی ایس 127 ملیر پر شکست کھائی تھی اور وہاں بھی پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب رہا لیکن اس بار صورت حال اس وجہ سے بھی دلچسپ تھی کہ الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیو ایم لندن نے اس ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ایم کیو ایم پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہیں کیونکہ وہ دو محاذوں پر لڑ رہے تھے ایک پیپلز پارٹی اور دوسرا ایم کیوایم لندن۔
‘الطاف حسین کا بائیکاٹ کوئی زیادہ پراثر نہیں رہا۔ جن پولنگ سٹیشنوں میں ایم کیو ایم پاکستان کو اچھے ووٹ ملے یہ وہی علاقے ہیں جہاں اردو آبادی موجود ہے اور انھیں غیر اردو اسپیکنگ ووٹ نہ ہونے کے برابر ملا ہے۔’
1988 سے لیکر 2013 کے عام انتخابات تک پاکستان پیپلز پارٹی اس حلقے سے کبھی کامیاب نہیں رہی جبکہ یہ نشست تین بار ایم کیو ایم اور تین بار عرفان مروت کے پاس رہی جن کو مسلم لیگ کے کسی نہ کسی دھڑے کی حمایت حاصل تھی۔
ضمنی انتخاب میں جیتنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سعید غنی
عرفان اللہ مروت نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی کوشش کی تھی لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی بیٹیوں بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری کی مخالفت کے بعد ان کی پارٹی میں شمولیت رک گئی اور انھوں نے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار نجیب ہارون کی حمایت کی لیکن ووٹروں میں یہ فیصلہ مقبول نظر نہیں آیا۔
ضمنی انتخابات کے دوران رینجرز کی موجودگی غیر روایتی رہی، ڈی جی رینجرز بھی خود گشت پر پہنچے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی نے رینجرز پر جانبداری کا بھی الزام لگایا۔
تجزیہ نگار سرتاج خان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح مہاجر ووٹر کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ لوگ الطاف حسین کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہیں اور اس شہر میں مائنس الطاف حسین سیاست ہو رہی اور بڑی کامیابی کے ساتھ ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف کے امیدوار نجیب ہارون پانچ ہزار 98 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے مسلسل ہر ضمنی انتخابات میں شکست کھائی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کراچی میں 2013 کے انتخابات میں جس طرح تحریک انصاف ابھری تھی اس سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ کراچی میں جڑیں پختہ کر لے گی لیکن وہ بلبلے کی طرح بیٹھ گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا زیادہ تر فوکس پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی طرف ہے کراچی میں انھوں نے زیادہ تگ ودو نہیں کی۔
تینوں اہم جماعتوں کے امیدواروں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی کا تعلق اسی حلقے سے تھا جہاں سے وہ دو بار یونین کونسل چیئرمین منتخب ہوئے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری اور تحریک انصاف کے نجیب ہارون شہر کے دیگر علاقوں میں رہائش رکھتے ہیں۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سعید غنی کو مقامی ہونے کا فائدہ پہنچا۔ اس کے ساتھ حلقے کی جو علاقائی صورت حال ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے ان جماعتوں سے اتحاد کیا جن کا اثر رسوخ موجود تھا جبکہ عرفان اللہ مروت فیکٹر بالکل بھی کام نہیں آیا۔
کراچی کا صوبائی حلقہ 114 کثیرالاقومی علاقہ ہے اور ووٹنگ کے رجحان میں بھی یہ اثر دیکھا گیا۔
تجزیہ نگار سرتاج خان کا کہنا ہے کہ مہاجر ووٹ ایم کیو ایم کو ملا جبکہ پنجابی ووٹ اکبر گجر کے پاس چلا گیا۔ جو امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس سنی، پشتون، پنجابی اور عیسائی ووٹ آئے گا ایسا نہیں ہو سکا۔
‘اس وقت تک پیپلز پارٹی ان حلقوں سے ضمنی انتخابات میں کامیاب رہی ہے جہاں اس کا ووٹ رہا ہے۔ عام انتخابات میں وہ ان علاقوں میں جہاں ایم کیو ایم کا اثر رسوخ رہا، وہاں سے کوئی سیٹ حاصل کرت ہے تو وہ بڑی کامیابی ہو گی۔’
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام فضل الرحمان قریبی اور مختلف حلقوں میں اتحادی رہی ہیں۔
تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ان جماعتوں میں اتحاد ممکن ہے۔ ایم کیو ایم کو اس اتحاد کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم لندن کی مخالفت کا سامنا کرنا ہے جو سب سے بڑے چیلینجز ہیں۔