اگلی حکومت عمران خان کی ہوگی یا نواز شریف کی ؟خبر لیک ہو گئی
لاہور (ویب ڈیسک ) ’’پانچ سال بعد 2023ءمیں پاکستان کیسا ہوگا؟‘‘ یہ وہ اہم سوال اور موضوع تھا جس پر مجھے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں بات کرنا تھی۔ مال روڈ پر نہر کے پل سے این سی اے تک چند کلو میٹر کا فاصلہ چالیس منٹ میں طے ہوا۔نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں لہٰذا بائیں جانب کے ذیلی راستوں سے این سی اے پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ پانچ سال کے بعد لاہور کی ٹریفک کا کیا حال ہوگا؟ این سی اے کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری مجھے شاکر علی آڈیٹوریم لیجا رہے تھ
ے تو میں این سی اے کے طلبہ و طالبات میں بھگت سنگھ تلاش کر رہا تھا جو تقسیم ہند سے قبل اس درس گاہ کا طالب علم تھا۔ مجھے ان طلبہ وطالبات کے روشن چہروں میں بھگت سنگھ تو نظر نہیں آیا لیکن مستقبل کےبہت سے نیر علی دادا، جمی انجینئر ، علی ظفر ، عائشہ عمر اور عمران عباس نظر آ رہے تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری استاد ہونے کے علاوہ بہت بڑے فنکار بھی ہیں۔ ان کی پینٹنگزکنگز کالج اسپتال لندن سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد کے درودیوار پر آویزاں ہیں۔ وہ پاکستان سے محبت کی خاطر یونیورسٹی آف ایسٹ لندن کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ این سی اے کے پرنسپل بننے کے بعد اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے کیبنٹ 2017ءمیں این سی اے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی سفارش کر چکی ہےاور ایک سال پہلے کیبنٹ ڈویژن بھی پاکستان کے سب سے پرانے آرٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے کی منظوری دے چکا ہے لیکن معاملہ صرف ایک فائل پر دستخط نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس فائل پر وزیر اعظم کو دستخط کرنا ہیں۔ ناں نواز شریف کو اس فائل پر دستخط کی فرصت ملی نہ شاہد خاقان عباسی کو یہ فائل دکھائی جاتی ہے۔ منتخب پارلیمنٹ ایک فیصلہ کر چکی لیکن غیر منتخب بیوروکریسی کی طاقت کے سامنے آج بھی پارلیمنٹ بے بس نظر آتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ پاکستان میں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا۔ این سی اے کے شاکر علی آڈیٹوریم میں سینکڑوں طلبہ وطالبات کے سامنے میں نے اپنی گفتگو 2013ء کے پاکستان سے شروع کی اور انہیں یاد دلایا کہ پانچ سال پہلے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی تھا۔ روزانہ خود کش حملے ہو رہے تھے پھر منتخب حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لیا اور فوج کے ساتھ مل کر کراچی اور شمالی وزیرستان میںآپریشن شروع کئے۔ دہشت گردی آج بھی ہوتی ہے لیکن دہشت گردی کے واقعات کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی جلسوں کی بہار نظر آتی ہے۔ ادبی میلوں اور بک فیئرز کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے سال پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوا، اس سال سیمی فائنل لاہور میں اور فائنل کراچی میں ہوگا۔ میں نے اس امید کا اظہار کیا کہ دو سال بعد پوری کی پوری پی ایس ایل پاکستان میں ہو گی جس پر شاکر علی آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھا۔ این سی اے کے طلبہ و طالبات نے مجھ سے بہت سوال پوچھے اور یہ سوالات بتا رہے تھے کہ پانچ سال بعد 2023ء کے پاکستان کی باگ ڈور پہلے سے بہتر نسل کے ہاتھ میں ہو گی۔ حیران کن طور پر سب سے زیادہ سوالات چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بارے میں پوچھے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ نئی نسل حکومت کے بہت سے دعوئوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنےکو تیار نہیں اور وہ چاہتی ہے کہ چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری ضرور بنائیں لیکن گوادر کے مچھیروں کو صاف پانی اور تعلیم بھی ملنی چاہئے ۔ ایک طالب علم نے پوچھا کہ آپ آئندہ الیکشن میں کس کو ووٹ دینگے؟میں نے جواب دیا کہ تین بڑی پارٹیوں میں زیادہ فرق نہیں رہا تینوں پر ایک ہی طبقے اور ایک ہی سوچ کا غلبہ ہے لہٰذا میں کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دونگا جو سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور سب سے کم امیر ہو گا۔