اگر امریکا نے گوادر تک رسائی طلب کر لی تو؟
اشرف جہانگیر قاضی
کابل واٹر ٹینک بم دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک اور 400 یا اس سے زائد زخمی ہوئے۔ مجموعی ہلاکتوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ اکتوبر 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہونے والا سب سے بڑا خودکش حملہ تھا۔
یہ ہولناک واقعہ ماہ رمضان میں پیش آیا۔ تاحال کسی بھی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ افغان طالبان نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور پاکستان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے والوں کے ورثا اور افغان حکومت کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
افغان این ڈی ایس (افغانستان کی آئی ایس آئی) نے حقانی نیٹ ورک پر الزام عائد کیا ہے اور مزید یہ الزام عائد کیا کہ پاکستان میں موجود اس کے سرپرست ان حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ شواہد کے بغیر یہ الزام لگانا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے۔ وہاں امریکا بھی مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ آئی ایس آئی حقانی نیٹ ورک کو سہولت اور خدمات فراہم کرتی ہے۔ پاکستان ان الزامات کو رد کرتا ہے۔
افغان انٹیلیجینس پاکستان سے اپنی مخالفت کی وجہ سے کافی مشہور ہے اور پاکستان میں کئی لوگ مانتے ہیں کہ افغان انٹیلیجینس ہندوستان کے زیر اثر ہے۔ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ، جو ایک دوسرے کے حریف ہیں، یہ عام افغان خیال پیش کرتے ہیں کہ افغان افواج کے خلاف طالبان کو تقویت دینے اور ان کی کامیابیوں کا ذمہ دار پاکستان ہے۔
پاکستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ افغان مسئلے پر کسی بھی لائحہ عمل کی تیاری میں افغانستان کے طالبان کو بھی لازمی شرکت کرنی چاہیے تا کہ پائیدار لائحہ عمل تیار ہو سکے۔ اگرچہ طالبان پاکستان کی کٹھ پتلیاں نہیں، مگر ان کا ہندوستان کی جانب کسی قسم کا کوئی خاص جھکاؤ بھی نہیں۔ مبینہ طور پر یہی وجہ ہے کہ پاکستان ان کے یا ان کے اتحادیوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کرے گا۔
افغانستان میں سیکیورٹی مشینری پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی حمایت کرنے پر انتقامی طور پر پاکستانی طالبان کی حمایت کرتی ہے۔ دونوں کے درمیان دلچسپیوں میں فرق کے باوجود، دونوں طالبان ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔
تدبیری لحاظ سے، افغان طالبان پاکستان کو ہدف نہیں بناتے اور پاکستانی طالبان افغانستان کو ہدف نہیں بناتے۔ اسٹریٹجک اور نظریاتی طور پر دونوں ایک ہی ہیں، سوائے علیحدہ ہونے والے ان دھڑوں کے جو اب داعش میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
دونوں کو دونوں ملکوں کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود ایسے عناصر کی حمایت حاصل ہے جنہیں رعایتیں اور سزا سے چھٹکارہ حاصل ہے۔ یہ ایک ناقابل برداشت صورتحال ہے جو کہ کسی صورت پاکستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتی ہے۔
سونے پر سہاگہ ٹرمپ کا 5 ہزار فوجیوں کو تربیت، مدد اور مشاورتی کاموں کے ساتھ ساتھ بلیک یا خفیہ آپریشنز کرنے کے لیے افغانستان (اور ممکن ہے پاکستان) میں بھیجنا فیصلہ ہے۔ یہ بھی ناگزیر طور پر ایک اور بدقسمت امریکی مشن ثابت ہوگا۔
اگلے چند دنوں میں اشارہ مل جائے گا کہ آیا امریکا اور اس کے اتحادی خود پاکستان کے خلاف حالیہ افغان الزامات کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر کرتے ہیں تو پاک امریکا تعاون پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
جہاں چین ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کرتا ہے تو یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان میں سے ایک کا انتخاب نہیں کرے گا۔ باضابطہ تردید کی کوئی بھی حیثیت ہو، تردید کی پالیسی خود سے پاکستان کے علاقائی تنہائی کے خطرے کو کم نہیں کر سکتی ہے۔ مزید برآں، ایران کے خلاف عرب نیٹو/ فوجی اتحاد میں شمولیت کی پاکستان کی پالیسی مزید علاقائی تنہائی میں اضافہ کر رہی ہے۔
کون مسلسل طور پر ایسی نااہل پالیسی تیار کرتا ہے؟ یقیناً دفتر خارجہ تو نہیں! اس کے باوجود، ہمارے سفیر بڑی بہادری کے ساتھ ناگزیر الزامات اپنے کندھوں پر اٹھاتے رہیں گے۔ شاید تبھی ہی تو ہمیں کسی وزیر خارجہ کی ضرورت نہیں۔ وہ صرف ایک کمزور خارجہ پالیسی کی راہ میں رکاوٹ ہی بنے گا۔
پاکستان کے ہندوستان، امریکا، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پست ترین سطح پر ہیں۔ کیا ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کمزوریوں کا بوجھ اٹھانے کی چین سے توقع کر سکتے ہیں؟ یہ حقیقی طور پر ایک قومی پالیسی کی کمزوری ہے۔ چین اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا اور کرنا بھی نہیں چاہیے۔
دوسری جانب، ہو سکتا ہے کہ داخلی اور بین الاقوامی طور پر مشکل میں گھرے ٹرمپ ‘ایک چھوٹی زبردست جنگ’— شمالی کوریا، ایران کے ساتھ، افغانستان یا ایک اور ایبٹ آباد کے اندر— پر غور کر رہے ہوں تا کہ ’ایک جنگی صدر’ کے لیے بڑھتے ہوئے تذبذب اور شرمساری کی شکار امریکی عوام کی زیادہ سے زیادہ مدد حاصل کر سکے۔ اس طرح مواخذے کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ ایسے منظر نامے میں، امریکا پاکستان سے سخت گیر اسٹریٹجک مطالبے بھی کر سکتا ہے جس سے چین کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اگر امریکا نے غیر معمولی طور پر بڑے پیمانے پر فوجی اور مالی امداد، امریکی منڈیوں تک رسائی، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ہندوستان پر زبردست دباؤ، جوہری پھیلاؤ اور مبینہ دہشتگرد ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے معاملات پر دباؤ میں کمی، پاکستان میں چین کے برابر سعودی/خلیجی امداد اور سرمایہ کاری کے فروغ سے للچا کر اگر گوادر تک رسائی کا مطالبہ کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کو سی پیک، ایشیائی ربط اور چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون کو اپنی ترجیحات سے نکالنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ شاید نہیں۔
چین پاکستان کو سنہری طویل المدتی فائدے اور مواقع پیش کر رہا ہے۔ امریکا شاید پرکشش مختصرالمدتی لیکن ناقابل بھروسہ طویل المدتی مدد کی پیشکش کرے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کرپٹ پاکستانی اشرافیہ کو قابل قبول بھی ہو—جن میں سے کئی کے مستقبل کی منصوبہ بندیوں میں پاکستان شامل نہیں ہوتا۔ مگر یہ پاکستان کے لوگوں کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی جو ہمیشہ، اچھے یا برے وقت میں، صرف اور صرف اپنے ملک کے وفادار رہیں گے۔
1971 میں مغربی پاکستان نے قائد کے پاکستان کو دفن کر دیا تھا۔ باقی بچے پاکستان نے اس سانحے یا اس کے بعد ہونے والے دیگر قومی سانحات سے پالیسی اسباق سیکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ معروف بنے بیٹھے دانشور طبقات اور میڈیا پنڈت اس صورتحال کو پاکستان میں ایک عام سیاسی رواج کے طور پر قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قیادت کی غداری اور کرپشن کی جانب دانشورانہ تفریق ہی ہماری سیاست کو وضح کرتی ہے۔ جولین بینیدا اپنی کتاب La Trahison des Clercs (دانشوروں کی غداری) میں لکھتے ہیں کہ دانشوروں کی غداری ہر غداری کو نارمل بنا دیتی ہے۔
آخر میں یہ کہ جس کسی نے بھی کابل کے لوگوں پر حالیہ ہولناک حملہ کیا— جن کی شاید کبھی شناخت بھی ممکن نہ ہو پائے— وہ بلاشک و شبہہ افغانستان اور پاکستان کے لوگوں، تمام مسلمانوں کے، اسلام کے، رسول خدا کے اور خدا کے دشمن ہیں۔
چاہے کچھ بھی سیاق و سباق، قانون، پس منظر، مقصد یا وضاحت ہو، قطعی طور پر یہ کام خود شیطان کا تھا، بھلے دنیا میں جہاں کہیں بھی اس قسم کے حملے ہوں۔ اس سیاہ اور خون آلود گھٹاؤں میں صرف روشن کی ایک ہی کرن نظر آتی ہے وہ ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان حقیقی اور جامع تعاون کا قیام۔ کم سے کم اہل اور مخلص قیادت کے لیے بھی یہ کوئی مشکل کام تو نہیں۔
کیا یہ حد سے زیادہ بڑی توقع ہے؟