رنگ برنگ

اپریل ہمیشہ نواز شریف کیلئے دُکھ لایا

لاہور( صابر شاہ) نواز شریف کا سیاسی کیرئیر بتاتا ہے کہ اپریل کا مہینہ برطرف پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کیلئے خوشیوں کے مواقع بہت کم جبکہ مایوسی اور نا امیدی کے بہت سے لمحات لایا۔نواز شریف کیلئے اپریل کے دوران مسرت افزا لمحات:۔9 اپریل 1985ء کو نواز شریف پاکستان کے وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آئے اور اس پلیٹ فارم سے وہ گزشتہ 33 سالوں کے دوران ملک کے سیاسی منظر پر اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرے۔ یہ 19 اپریل 2010ء تھا جب اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے رضاکارانہ طور پر آئین کی 18ویں ترمیم پر دستخط کئے جس سے ان کے اپنے اختیارات کم ہو گئے۔ اس ترمیم کے ذریعے جو بڑی تبدیلیاں کی گئیں ان میں وزرائے اعظم کے لئے دوبار کی پابندی کا خاتمہ بھی شامل تھا جس سے نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔اپریل کے دوران نواز شریف کے لئے افسردگی اور بربادی کے لمحات:۔گریگورین کیلنڈر کا چوتھا مہینہ اپریل ملک کے تین بار کے حکمران کیلئے بہت سے مواقع پر بدقسمت ثابت ہوا۔ان مواقع کی بعض تفصیلات درج ذیل ہیں:۔بیٹے کی کمپنی سے غیر اعلانیہ تنخواہ کے
اثاثے چھپانے پر سپریم کورٹ کی طرف سے عوامی عہدہ کیلئے نواز شریف کی نا اہلی کے 28 جولائی 2017ء (جمعہ) کے فیصلے کے 261روز بعد انہیں 13 اپریل 2018ء (جمعہ) کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے متفقہ فیصلے کے تحت تا حیات نا اہل قرار دیدیا گیاہے۔اپریل کا مہینہ 1993ء میں نواز شریف کے لئے اس وقت پہلی بار تکلیف دہ ثابت ہوا جب اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اُس سال 18 اپریل کو 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کے تحت اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کر دی، یہ آرٹیکل اب ختم کیا جا چکاہے۔ غلام اسحاق خان نے نواز شریف کو اختیارات کے معاملے پر خود سے شدید اختلافات کے باعث گھر بھیجا‘ اگرچہ صدر غلام اسحاق خان نے میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا تھا تاہم نواز شریف نے اس صدارتی اقدام کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور سپریم کورٹ چلے گئے جس نے اس وقت کے ریاستی سربراہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور اس شخص کو بحالی نامے جاری کر کے خوش کر دیا جسے ایک ماہ قبل ہی باہر کا دروازہ دکھایا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف 26 مئی 1993ء کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد واپس اقتدار میں آ گئے جس میں قرار دیا گیا تھا کہ صدارتی حکم غیر آئینی تھا اور فوری طور پر قومی اسمبلی بحالی کی جائے تاہم نواز شریف کی فتح تھوڑی مدت کی ثابت ہوئی کیونکہ اختیار کے معاملے پر ان کے صدر سے اختلافات برقرار رہے جس کے باعث دونوں متحارب فریقوں کو عہدوں سے محروم ہونا پڑا اور یہ کام اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل شمیم عالم خان کی’’خیر سگالی‘‘ پر مشتمل مداخلت سے ہوا۔یہ 6 اپریل 2000ء تھا جب نواز شریف کو ایک کمرشل طیارے کی ہائی جیکنگ کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ انہیں سزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا دی گئی اور ان کی تمام ذاتی جائیداد ضبط کرنے کا حکم سنایا گیا۔ 7 اپریل 2000ء کے ایڈیشن میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے لکھا کہ 6شریک ملزمان جنہیں بری کر دیا گیاتھا‘ کے ساتھ کھڑے نواز شریف نے اس وقت پلکیں جھپکائیں جب فیصلہ پڑھا گیا‘ ان کی بیٹی مریم صفدر کی ایک چیخ نے سناٹا توڑ دیا جب وہ چلائیں ’’خدا کا خوف کرو‘‘ اس کی والدہ کلثوم نواز نے بے نیاز رہنے کی کوشش کی اور اسے اور دیگر رشتہ داروں کو خاموش رہنے کا اشارہ دیا جنہوں نے آہ وزاری شروع کر دی تھی۔ 52 سالہ شریف جلدی سے باہر نکل گئے، اس موقع پر ان کے اہل خانہ اور کارکنوں نے جنہوں نے قرآن پاک کے نسخے اٹھا رکھے تھے اس کے تعاقب کی کوشش کی یہ لوگ ’’نواز شریف زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے ۔موقر امریکی اخبار نے لکھا ’’نواز شریف کا ہائی جیکنگ کا جرم یقیناً عام قسم کا نہ تھا جبکہ دنیا اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھتی ہے‘ اس میں کوئی ہتھیار استعمال نہ کیا گیا حتیٰ کہ نواز شریف اس طیارے پر سوار ہی نہ تھے‘ ان کا جرم یہ احکامات جاری کرنا تھا کہ انہیں نے گرائونڈ کنٹرول سے کہا تھا کہ وہ کراچی آنے والے جہاز کو اترنے کی اجازت نہ دے اور اسے ملک سے باہر بھیج دیا جائے۔ پائلٹ کے مطابق طیارے میں ایندھن کم تھا اور طیارے میں سوار ہر شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا تھا‘ طیارے میں سوار 198 افراد میں جنرل پرویز مشرف بھی شامل تھے جو اسی روز بغاوت کے بعد اقتدار میں آئے۔یہ اپریل 2016ء تھا جب 15 لاکھ دستاویزات کی غیرمعمولی لیک میں نواز شریف سمیت دنیا کے انتہائی اہم رہنمائوں سیاستدانوں اور مشہور شخصیات پر خفیہ دولت کا الزام لگایا گیا اور دنیا بھر کی 2 لاکھ 14 ہزار 488 سے زائد آف شور کمپنیوں کی تفصیلات جاری کی گئیں۔ جونہی پاناما لیکس سامنے آئی پاکستان کی سیاسی اپوزیشن جس میں پاکستان تحریک انصاف سب سے آگے آگے تھی نوازشریف سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ شروع کر دیا کہ وہ اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ نواز شریف نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا جس پر عمران خان اپنے سیاسی حریف کے خلاف فاضل عدالت میں چلے گئے۔ پاناما پیپرز کیس (باقاعدہ طور پر عمران خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف کیس) یا پاناما گیٹ کیس کہا جاتا ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے ایک قانونی مقدمہ تھا جس کی یکم نومبر 2016ء سے 23 فروری 2017ء کے درمیان سماعت ہوئی ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 28 جولائی 2017ء کو ایک متفقہ فیصلے میں نواز شریف کو 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں قابل وصول اثاثے ظاہر نہ کرنے پر عوامی عہدے کے لئے نا اہل قرار دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان اہم تاریخی فیصلے جمعہ کو جاری کرنا پسند کرتی ہے:۔اتفاق یہ ہے کہ پاناما کیس میں 28 جولائی 2017ء (جمعہ) اور سابق وزیراعظم کی تاحیات نا اہلی کے 13اپریل 2018 (جمعہ) کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے کئی تاریخی مقدمات کے فیصلے بھی ہفتے کے اسی پانچویں دن جاری کئے۔مثال کے طور پر سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ نے 20جولائی 2007ء (جمعہ) کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم کر دیا اور چیف کو جبری رخصت پر بھیجنے کے صدارتی اقدام کو غیر موثر قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اس وقت کے ریاستی سربراہ جنرل مشرف کی طرف سے 9 مارچ 2007ء کو معزول کئے گئے چیف جسٹس دوبارہ اس عہدے پر متمکن ہو گئے۔ 3 کے مقابلے میں 10کی اکثریت (جسٹس فقیر محمد کھوکھر ، جسٹس جاوید بٹر اور جسٹس سید سعید اشہد نے اختلاف کیا تھا) نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کی دائر کردہ آئینی درخواست نمبر غیر 21 آف 2007ء فاضل عدالت نے ایک طرف رکھ دی‘28 ستمبر2007ء (جمعہ) کو سپریم کورٹ نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی ۔ عدالت نے اپوزیشن کی ان درخواستوں کی سماعت ختم کردی جن میں کہا گیا تھا کہ اکتوبر 1999ء میں 8سال قبل بغاوت کی سربراہی کرنے والا اہم امریکی اتحادی مشرف 6اکتوبر 2007ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں کیونکہ وہ اب بھی آرمی چیف کے طور پر کام کر رہے ہیں‘ مارچ 2007ء میں ملک کے چیف جسٹس کو ہٹانے کے بھونڈے اقدام کے بعد سے مشرف سپریم کورٹ سے سینگ اڑاتے رہے کیونکہ ان کے اس اقدام سے عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور صدر کی مقبولیت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔اس وقت بھی جمعہ(31جولائی 2009ء) ہی تھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے 3نومبر2007ء کو اٹھائے گئے تمام تر اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 279 کے تحت عبوری آئینی حکم ججز کیس میں دیا گیا جسے پی سی او ججز کیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button