آج عوامی پارلیمنٹ لگائیں گے‘ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا اعلان
اسلام آباد(خصوصی نمائندہ+خبر نگارخصوصی+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر کی تقریر پی ٹی وی پر براہ راست نہ دکھانے پر اپوزیشن نے دوسرے روز بھی اجلاس سے واک آؤٹ کیا، اپوزیشن نے اجلاس میں حاضری اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست دکھانے سے مشروط کردی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے سپیکر کو متنازعہ بنا دیا، اپوزیشن لیڈر کی تقریر سرکاری ٹی وی پر براہ راست نہ دکھانے کا فیصلہ وزارت اطلاعات کا نہیں بلکہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے گریڈ21کے افسر کا ہے، سپیکر قومی اسمبلی نے بجٹ بحث کا آغاز حکومتی ارکان سے کرکے قومی اسمبلی کی روایات کو توڑا، ہم نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ اصل طاقت ہے اس میں آکر بات کریں، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے۔ انہوں نے رانا تنویر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر جمہوریت اور اس کو نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار ہم سب ہوں گے۔ خورشید احمد شاہ نے کہا کہ ہم سپیکر کا احترام کرتے ہیں کہ کارروائی ایسے چلے جس پر حکومت اور اپوزیشن اعتراض نہ کریں، وہ زمانہ گزر گیا جب حکومت کی بات لوگ سنتے رہیں، ہمارا منہ زبان بند کردیں اور ہم سنتے رہتے ہیں۔ آپ کو پرچی آگئی آپ نے کہا کہ میں اجلاس ملتوی کردیتا ہوں لیکن آپ نے نہیں کیا اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں روزے سے ہوں مجھے کوئی پرچی نہیں آئی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آنکھوں کے اشاروں سے آپ کو پتہ چل گیا تھا، بجٹ پر بحث کا آغاز حکومت کی طرف سے کیا گیا لیکن اس کو کون جانے گا، طاقت کے زور پر کرلیں گے لیکن طاقت کے بل بوتے پر ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی نہیں کرسکے، ہم نے اس جمہوریت کو قربانیاں دے کر بحال کیا، اس پارلیمنٹ کو کون مانے گا اس پارلیمنٹ کو آپ نے پاش پاش کردیا۔ آپ براہ راست تقریر سے ڈرتے ہیں۔ اگر کل میرا مؤقف آجاتا تو کیا قیامت آجاتی، میں وہ دن کہاں سے لاؤں جب خورشید شاہ کے ہاتھ چومے جاتے تھے، جب آپ اپنے وزیراعظم کو ڈکٹیٹر بنائیں گے تو معاملات نہیں چلیں گے، ہم پرویز مشرف سے نہیں ڈرے تھے، اگر آپ ہمیں پی ٹی وی پر براہ راست دکھائیں گے تو ہم حاضر ہیں باوجود اس کے کہ آپ نے کل حکومت کو پہلے بجٹ بحث پر موقع دیا، سپیکر نے کہا کہ آپ کی تقریر ریکارڈ کا حصہ بنے گی میری گزارش ہے کہ آپ تقریر کریں، جس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ چیئرمین سینٹ نے کہا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست ہونی چاہئے لیکن وہ چیئرمین تھے اور آپ سپیکر قومی اسمبلی ہیں، اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں نے سارا ریکارڈ نکال کر دیکھا ہے کہ صرف2015ء کے سوا آج تک کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست نہیں دکھائی گئی۔ وفاقی وزیر رانا تنویر احمد نے کہا کہ خورشید شاہ نے جمہوریت کے لئے بہت کام کیا دھرنے پر انہوں نے بہت اچھا رول ادا کیا لیکن کچھ عرصے سے ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ رانا تنویر نے کہا کہ جو باتیں ایوان میں ہو رہی ہیں وہ عوام تک پہنچ رہی ہیں، موجودہ حکومت نے اپوزیشن کو بہت حقوق دیئے ہیں کیا اس کے پیچھے اور مقاصد ہیں کہ اپوزیشن لیڈر تقریر نہیں کر رہے۔ عمران کا رویہ آمرانہ ہے، جمہوریت کے خلاف چلنے والی پارٹی کے ساتھ خورشید شاہ کو نہیں چلنا چاہئے، ان کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے گو نوازگو اور گلی گلی میں شور ہے نوازشریف چور ہے کے نعرے لگا دئیے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے، حکومتی وزیر نے کہا کہ خورشید شاہ پھسل گئے ہیں ان کی عمر ہے پھسلنے کی، جن کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے ان کا ہاتھ چومنے کیلئے پوری (ن) لیگ بے تاب رہتی تھی، آج ان کو جمہوری قدریں دکھائی جارہی ہیں، ہمیں سپیکر قومی اسمبلی کے روئیے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حکومت جب کسی مشکل میں آتی ہے تو سپیکر کا سہارا لیتی ہے، اگر اپوزیشن لیڈر کی تقریر براہ راست آجاتی تو کیا ہوجاتا، اس سے کیا حکومت گرنے کا کوئی خطرہ تھا، اگر براہ راست تقریر نہ ہونے دی گئی تو یہ بجٹ سیشن بے معنی ہوجائے گا۔ حکومت بجٹ پاس کرلے لیکن حکومت کو اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کو 2014 کا خورشید شاہ اچھا لگتا ہے 2017کا نہیں اگر حکومت نے رویہ نہ بدلا تو یکم جون کو صدر کے خطاب تک احتجاج جاری رہے گا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہوسکتا ہے کل کوئی جواب آجائے تب تک کیلئے واک آؤٹ کرتے ہیں۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ وہ روایات ڈالیں جو آپ کل برداشت کرسکیں اگر کوئیمسلم لیگ ن کے لیڈر کے خلاف بات کرے گا تو ہم بھی بات کریں گے۔ صباح نیوز کے مطابق خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت میں ضیاء الحق کی روح ہے اور آخری سال اس میں آمریت کی جھلک نظر آرہی ہے، میں سپیکر اسمبلی کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن گزشتہ روز کے رویئے پر بہت افسوس ہوا، ہم ایسا ایوان نہیں بننے دیں گے جو لولا لنگڑا اندھا اور کانا ہو، یہ کسی کو حق نہیں کہ اپوزیشن کے ہاتھ پاؤں باندھ دے، یہ کام جمہوری اداروں کا نہیں ڈکٹیٹر کا ہوتا ہے، اگر سپیکر کا یہی رویہ رہا تو حکومتی بجٹ کو کوئی نہیں مانے گا۔ آج اپوزیشن کی تمام جماعتیں پارلیمنٹ کے باہر پارلیمنٹ لگانے کے لئے جمع ہوں گی، تقاریر کی اندر اجازت نہیں ملتی وہ باتیں باہر ہوں گی۔