انٹرنیٹ کے غلط استعمال کور وکنے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں،
صحافیوں پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
(بشیر باجوہ بیورو چیف پاکستان نیوز وی او سی
انٹرنیٹ کے غلط استعمال کور وکنے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں، ایف آئی اے کی ایک ماہ میں اس بارے میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں رپورٹ پیش کر دی جائے گی،2017 میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت 102مقدمات درج ،82افراد گرفتار اور 559تحقیقات ہوئیں، الیکٹرانک کرائم ایکٹ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ایف آئی اے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے ، اظہار آزادی رائے کے حوالے سے آئین کے دیئے گئے مینڈیٹ کو پامال نہیں کیا گیا، بہتری کی گنجائش رہتی ہے، بل پر عملدرآمد کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے ، قانون میں غلط استعمال روکنے کے حوالے سے طریقہ کار موجود ہے، کسی کے پاس شکایت ہے تو سامنے لائیں تحقیقات کرائیں گے
وزرائے مملکت بلیغ الرحمان اور انوشہ رحمان کا سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کی الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے حوالے سے تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہی ، اس سے آزادی اظہار رائے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، حکومت بل کو سیاسی ہتھیارکے طور پر استعمال کر رہی ہے،صحافیوں اور میڈیا ورکر کے خلاف قومی سلامتی کی آڑ میں پابندیاں قابل مذمت ہیں، ابھی تک حکومت نی اس حوالے سے رپورٹ پیش نہیں کی بل میں ترمیم کر کے خامیاں دور کی جائیں ، قانون کا غلط استعمال بند نہ ہوا تو یہ کالا قانون بن جائے گا، اپوزیشن ارکان کی تنقید
حکومت کی جانب سے سینیٹ کو آگاہ کیاگیا کہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو وکنے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں، ایف آئی اے کی ایک ماہ میں اس بارے میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں رپورٹ پیش کر دی جائے گی،2017 میں الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت 102مقدمات درج ،82افراد گرفتار اور 559تحقیقات ہوئیں، الیکٹرانک کرائم ایکٹ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ایف آئی اے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے، اس بل پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جتنی بحث کرائی گئی اتنی کسی اور بل پر نہیں ہوئی۔
دنیا میں انٹرنیٹ گورننس کیلئے دنیا میں سسٹم موجود ہیں، اظہار آزادی رائے کے حوالے سے آئین کے دیئے گئے مینڈیٹ کو پامال نہیں کیا گیا، بہتری کی گنجائش رہتی ہے، بل پر عملدرآمد کا اختیار یاف آئی اے کے پاس ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں یوٹیوب بند کی گئی تھی، قانون میں غلط استعمال روکنے کے حوالے سے طریقہ کار موجود ہے، کسی کے پاس شکایت ہے تو سامنے لائیں تحقیقات کرائیں گے، بل ایک بڑا کارنامہ ہے، شکایات پر پی ٹی اے کارروائی کرے گا جبکہ اپوزیشن ارکان نے کہاکہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے آزادی اظہار رائے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، حکومت بل کو سیاسی ہتھیارکے طور پر استعمال کر رہی ہے،صحافیوں اور میڈیا ورکر کے خلاف قومی سلامتی کی آڑ میں پابندیاں قابل مذمت ہیں، قانون کے تحت حکومت کی جانب سے 6 ماہ کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں رپورٹ پیش کرنا ضروری ہے لیکن ابھی تک حکومت نے رپورٹ پیش نہیں کی، سوشل میڈیا پر قدغن اظہار رائے کے خلاف ہے، قانون کا غلط استعمال بند کیا جائے اور اس میں ترمیم کر کے خامیاں دور کی جائیں، اگر غلط استعمال بند نہ ہوا تو یہ کالا قانون بن جائے گا، تنقید سے بچنے کیلئے صحافیوں کو کام سے روکا جا رہا ہے، قومی سلامتی کی ڈھال لے کر یہ قانون تلوار کی طرح چمکنا شروع ہو گیا ہے۔
بدھ کو ان خیالات کا اظہار سینیٹر اعتزاز احسن، تاج حیدر، عثمان کاکڑ، حافظ حمد اللہ ،فرحت اللہ بابر، الیاس بلور، کریم خواجہ، سحر کامران، سراج الحق، میاں عتیق و دیگر نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے غلط استعمال کے حوالے سے تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔سینیٹر تاج حیدر نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے غلط استعمال سے اظہار رائے کی آزادی کو لاحق خطرہ اور صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے خلاف جرائم کا بلاخوف سرزد ہونے کے حوالے سے تحریک ایوان میں پیش کی۔
تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ پر بہت سارے تحفظات تھے، یہ خدشات درست ثابت ہوئے، یہ بل قومی سلامتی کے طور پر منظور ہوا تھا لیکن یہ ایک سیاسی ہتھیار بنایا گیا ہے اور ملک کو سیکیورٹی سٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی گئی ہے، ایف آئی اے نے 9000کیس سائبر کرائم کے حوالے سے رجسٹرڈ کئے تھے، الیکٹرانک کرائم میں بڑا کیس ڈان لیکس تھا لیکن اس پر کوئی کارکردگی نہیں ہوئی، صحافیوں اور میڈیا کے خلاف جرائم کی مذمت کرتی ہوں، حکومت اس کو بند کرائے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابرنے کہا کہ الیکٹرانک کرائم بل کا غلط استعمال ہوا ہے، ایف آئی اے کو چھ ماہ کے بعد رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی شق ڈالی تھی، ابھی تک رپورٹ پارلیمنٹ میں نہیں پیش کی گئی، گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ایک صحافی کو گرفتار کیا گیا، اس نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی جس میں ایک پولیس کا انسپکٹر گاڑی کی ٹکر مار کر شہید کیا گیا تھا، فوج کو بدنام کرنے کے حوالے سے بھی کارروائی کی جا رہی ہے، آزادی اظہار رائے کو فوج کو بدنام کرنے کے نام پر خطرے میں ڈال دیا ہے، اگر کوئی سیکیورٹی اداروں میں کرپشن کی نشاندہی کرنا چاہیے تو اس کو آرمی کو بدنام کرنے کے نام سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔
سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کا غلط استعمال روکنا پڑے گا، پاکستان میں اس وقت دلیل کی بات کرنا ختم ہو چکا ہے، تشدد اور گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سینیٹر کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ حکومت الیکٹرانک کرائم بل کے غلط استعمال کو روکے، دہشت گرد تنظیمیں بلا رکاوٹ سوشل میڈیا استعمال کر رہی ہیں، ان کو کوئی نہیں پکڑ رہا جبکہ لبرل لوگوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال کر رہی ہیں اور صحافیوں کو دبایا جا رہا ہے، حکومت کیجانب سے صحافیوں اور میڈیا پرسنز کے خلاف اقدامات کی مذمت کرتے ہیں، ظالم حکومت اس طرح باقی نہیں رہ سکتی۔
سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ قانون عوام کی آسانی اور بہتری کیلئے بنائے جاتے ہیں، اگر ایسے قانون بنائے جائیں گے کہ اپنوں کو چھوڑا جائے اور جس کو چاہے پکڑا جائے تو ایسا قانون کالا قانون ہو گا،قانون کو غلط استعمال کرنے کے حوالے سے تحفظات درست نکلے، ایک سال میں ایک ہزار لوگوں پر قانون کے تحت کارروائی کی گئی۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آزادی اظہار رائے یہ آئین کی روح ہے، تنقید حکمران برداشت نہیں کر سکتے، الیکٹرانک کرائم بل کو روکنے کے حوالے سے کوئی طریقہ کار بل میں نہیں رکھا گیا،ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے ، آزادی اظہار رائے کے حق کو محفوظ کیا جائے۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سرکاری میڈیا پر اپوزیشن کے موقف کو نہیں دیکھا جاتا اور نجی میڈیا پر بھی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے، سارا ڈرامہ سوشل میڈیا پر پابندی کیلئے لگایا گیا ہے، میڈیا ورکر کے خلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، قانون میں ترمیم کر کے بہتر کیا جائے، فیس میڈیا پر جعلی اکائونٹ بنائے گئے ہیں، مشعال خان کا قتل جعلی اکائونٹ کی وجہ سے ہوا، قوم، مذہب، فرقے، کلچر اور زبان کی توہین نہیں ہونی چاہیے، قانون کا غلط استعمال بند کیا جائے۔
سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آمریت نے آزادی اظہار رائے کو روکا، آمریت نے آزادی کے بہائو کو روکا اور تعفن پھیلا۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اجلاس میں آنا چاہیے، ملک میں صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے، صحافیوں کو کام سے روکا جا رہا ہے، چھ ماہ کے بعد رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا لیکن دو سال ہو گئے ہیں رپورٹ پیش نہیں کی، صحافیوں پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ آزادی اظہار رائے انسان کابنیادی حق ہے، اس پر قد غن کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، کسی کی تذلیل اور توہین آزادی اظہار رائے نہیں ہے، صحافت کاتعلق تحریر اور تقریر سے ہے، قلم اس طرح چلنا چاہیے کہ سیاست دانوں کی پگڑی نہ اچھالی جائے، سیاستدان جیل اور کال کوٹھڑی میں جاتے ہیں لیکن مقدس گائے کون ہے جس کے خلاف تنقید نہیں ہو سکتی۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قانون کے غلط استعمال کی وجہ اداروں میں مطلوبہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ جب یہ قانون بن رہا تھا حکومت نے بہت سارے وعدے اور یقین دہانیاں کرائیں، پتا تھا کہ یہ ریاست اور اس کے اداروں کے پاس برہنہ تلوار ہے جو ہر طرف چلے گی، ریاست اس قانون کو آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال کرے گی، قومی سلامتی کا سہارا اور ڈھال لے کر یہ قانون تلوار کی طرح چمکنا شروع ہو گیا ہے اور غلط استعمال ہو رہا ہے، آج تک کوئی بھی سیکیورٹی ٹیسٹ باقی نہیں رہی، جس کی مثال سابقہ سویت یونین ہے، جس کے پاس ہر طرح کا ہتھیار اور فوج تھی جبکہ فلاحی ریاست میں ہر شہری ریاست کی پہلی ترجیح ہوتا ہے، حکومت سوشل میڈیا پر قدغن لگانا چاہتی ہے، یہ ہوا کی طرح ہے، جس پر تلوار چلائیں تو نہیں چلے گی، اس ایکٹ کے حوالے سے کمیٹی آف دی سیول میں بحث کی جائے۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن و ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا کہ اس بل پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جتنی بحث کرائی گئی اتنی کسی اور بل پر نہیں ہوئی۔ دنیا میں انٹرنیٹ گورننس کیلئے دنیا میں سسٹم موجود ہیں، اظہار آزادی رائے کے حوالے سے آئین کے دیئے گئے مینڈیٹ کو پامال نہیں کیا گیا، بہتری کی گنجائش رہتی ہے، بل پر عملدرآمد کا اختیار یاف آئی اے کے پاس ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں یوٹیوب بند کی گئی تھی، قانون میں غلط استعمال روکنے کے حوالے سے طریقہ کار موجود ہے، کسی کے پاس شکایت ہے تو سامنے لائیں تحقیقات کرائیں گے، بل ایک بڑا کارنامہ ہے، شکایات پر پی ٹی اے کارروائی کرے گا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ قانون کے تحت 6ماہ میں ایوان میں رپورٹ پیش کرنا ضروری ہیچیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بل کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوا جن پر ہونا چاہیے تھا۔ جبکہ سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کی الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے غلط استعمال سے اظہار رائے کی آزادی کو لاحق خطرہ اور میڈیا سے وابستہ افراد کے خلاف جرائم کا بلا خوف سرزد ہونے کے بارے میں تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ سے چیئرمین سینیٹ کی ہدایت کی روشنی میں ایک ماہ میں رپورٹ طلب کی گئی ہے، حکومت نے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں جواب دہی کیلئے ایف آئی اے پارلیمنٹ کو متعلقہ کمیٹی میں پیش ہونے کیلئے تیار ہے، 2013 میں انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے حوالے سے 1312،2014 میں 1782، 2015 میں 4361،2016 میں 9075، 2017 میں 4030 شکایات موصول ،559تحقیقات ہوئیں، سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 102مقدمات درج کئے گئے،82 افراد گرفتار ہوئے، غلط تصاویر آنے پر خود کشی کے واقعات ہوئے، غلط استعمال کے سامنے دیوار کھڑی کر رہے ہیں، وائی فائی فری فار آل نہیں ہونی چاہیے، شناخت کے بعد وائی فائی کی سہولت ملنی چاہیے، یقیناً غلط استعمال کی وجہ سے زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں، سیاست میں بھی الزام تراشی کا سلسلہ رکنا چاہیے، وائی فائی کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، دہشت گردی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اس لئے دنیا بھر کے تمام ایئر چوائس پر بھی شناخت کے بغیر وائی فائی کی سہولت دستیاب نہیں