کالم,انٹرویو

اندھیرے,اجالےاورڈاکو

کالم :- میاں رزاق اےآروآئی نیوز
شہید صحافت میاں عبدالرزاق کا آخری کالم
شروع کرتا ھوں رب کعبہ کے عظیم اور بابرکت نام سے جو پوری کائنات کا مالک اور ظاہر اور باطن کو جاننے والا ھے اور کروڑوں درود اسلام اس عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جس نے پوری انسانیت کو نا صرف زندگی گزارنے کے طور طریقے بتائے بلکہ عملی نمونوں سے بھی اس بٹھکی ھوئی قوم کو سیدھا راستہ بھی دیکھایا.
تمام معزز دوستو کو ناچیز کا عاجزانہ سلام قبول ھو . آج جب دل نے چاھا کہ کچھ ایسا لکھا جائے جو ھمارے معاشرے کی عکاسی بھی کرتا ھو اور اس میں اصلاحی پہلو بھی شامل ھو اور اور وہ آج کل کی زندگی کا احاطہ بھی کرتا ھو .تو تقریبا گھٹوں سوچتے سوچتے میرے دماغ میں ایک لفظ ڈاکو آیا تو میں نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا مگر ھمیں اس ٹاپک پر بحث کرنے سے پہلے ایک بات ضرور ذھن نشین کر لینی چاھیے کہ اگر کسی ادارے یا شخص کے ساتھ اس ٹاپک کی مماثلت محض اتفاقیہ ھو سکتی ھے ویسے بھی عقلمند کو اشارہ بھی کافی ھوتا ھے پر میرے پیارے وطن میں عقلمندی کے ساتھ بھی ڈکیتی کی جارھی ھے کیونکہ جب ڈگری اصلی ھو یا نقلی ڈگری ھی اکاؤنٹ ھو گی تو تو عقل بھی اسی ڈگری کی مانند ھی ھو گی ویسے بھی اس کاغذ کے ٹکڑے کی ویلیو اتنی بھی نھی ھے کیونکہ ھمارے پاس اعلی پائے کےتجربہ کا سیاستدان , پنچایت کرنے والے وڈیرے اور عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے اس پاک دھرتی کے نام نہاد جاگیر دار جو ھیں اس لیے آج کی تحریر کچھ کڑوی ھو گی برداشت کرنے کی ھمت پیدا کرنا ویسے تو اس برداشت کی آجکل پاکستان میں بھت کمی پائی جاتی ھے اور عدم برداشت کا رویہ دن بدن پروان چڑھ رھا ھے خیر ھم مل کر کوشش کرتے ھیں ھو سکتا ھے اس کو پڑھ کر ھماری نئی نسل ھی راہ راست پر آجائے . تو میرے دو ستو آج اس موضوع اندھرے ,اجالے اور ڈاکو پر بحث کرتے ھیں امید کرتا ھوں میرے پیارے دوست اپنی رائے ضرور دیں گے اور اس کا آغاز ان چند الفاظ سے کرونگا امید کرتا ھوں آپ ساری بات سمجھ جائیں .
?ھمارے عہد کی حالت عجیب حالت ھے.
بھلائی کا کوئی امکاں نظر نھی آتا.
ھمیشہ کرتے ھیں تنقید دوسروں پر ھی.
کسی کو اپنا گریبان نظر نھی آتا?
ھمارے معاشرے کا بڑا ناسور وہ ڈاکو ھیں جو لوگوں کو رات کے اندھیرے میں ڈرا دھمکا کر لوٹتے ھیں اور اس وحشی پن میں بعض اوقات وہ شہریوں کی جان سے بھی کھیل جاتے ھیں اور اکثر دوران واردات درندگی کا وہ گھناؤنا کھیل بھی کھیلتے ھیں جسے سن کر انسانیت بھی شرما جاتی ھے کیونکہ ان کا محض ایک مشغلہ ھوتا ھے اور کسی غریب کی عزت ھمیشہ کے لیے برباد کر دی جاتی ھے یہ ڈاکوؤں کی وہ بگڑی ھوئی نسل ھے جو صرف دولت کی خاطر اپنے ملک کی عزت داؤ پر لگانے سے بھی گریز نھی کرتے اور یہی وہ معاشرے کے گندے ناسور ھیں جو دھشت گردوں کے سہولت کار بن کر نہتے عوام کا قتل عام کروانے میں ان کے آلہ کار بن جاتے ھیں .معاشرے کے اس کینسر کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پروگرام کے نام سے ایک مہم پنجاب میں کامیابی سے جاری ھے. جس کے لیے ایک باعزت شہری ھونے کی وجہ سے ھمیں اپنی فورسز کا پورا ساتھ دینا چاھیے اور ایسے عناصر کی نشاندھی کر کے محب وطن پاکستانی ھونے کا ھمیں ثبوت دینا چاھیے کیونکہ ایسا حادثہ ھمارے ساتھ بھی پیش آسکتا ھے. عام انسان ایسے ناسور کی نشاندھی کر کے ایک عظیم کام کرنے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت بھی کرتا ھے اور مقامی فورسز کی مدد بھی کر کے ایک فرض شناس شہری ھونے کا ثبوت بھی دیتا ھے .اور اگر ھر شہری اور دیہاتوں میں رھنے والے محب وطن شہری یہ احساس ذمہ داری اپنا لیں تو معاشرے کو جنت کا نمونہ بنایا جا سکتا ھے.
اسکے بعد ملک میں شرعام لوٹنے ڈاکوؤں کی دوسری قسمیں آجاتی ھیں جن میں نمبر ایک پر ڈاکٹر آجاتے ھیں جو مسیحا بن کر عوام کو لوٹتے ھیں ان سے یا تو ھم خود اپنی مرضی سے لٹتے ھیں یا یہ ڈاکو ایسے ٹیکنیکل طریقے سے لولٹتے ہیں کہ ھمیں لٹنے کا پتہ بھی نھی چلتا اور ھم لٹ بھی جاتے ھیں اور یہ ڈاکٹر ڈاکو ھمارے معاشرے کے ایک معزز پیشے سے منسلک ھونے کے ساتھ ساتھ اتنی ایمانداری سے لوٹتے ھیں کہ ھم لٹنے کے بعد بھی ان کے گیت گاتے دکھائی دیتے ھیں ان ڈاکوں کی دو قسمیں ھر جگہ عام پائی جاتیں ھیں جن میں کچھ کوالیفائیڈ ڈاکو اور کچھ اس پیشے کو نان کوالیفائیڈ طریقے سے عوام کا لہو نچوڑتے دکھائی دیتے چند ایک خدا کا خوف اور انسانی ھمدری کے ناطے اپنے پیشے سے مخلص بھی دکھائی دیتے ھیں پر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ھوتی ھے اجالے کے یہ ڈاکو ایسے ایسے طریقوں سے عوام کا لہو پیتے ھیں کہ گندے پانی میں رھنے والی جھونکیں بھی شرما جاتیں ھیں.اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیسن کمپنیوں والوں نے ان ڈاکوؤں کے ساتھ ٹھیکے کیے ھوئے ھیں اور یہ ٹھیکیداری صرف اتنی سی ھوتی ھے کہ اس کیے لیے صرف ان کی کمپنی کی میڈیسن مریض کو لکھ کر دی جاتی ھے خواہ اس میں چونا یا گائے بھینسوں کے ونڈے میں استعمال ھونے والا کیمیکل کا ھی استعمال کیوں نہ کیا گیا ھو اس کے ساتھ ساتھ خواہ اس زھریلے کیمیکل اور کیڑے مکوڑوں کا آمیزہ ھی شامل کیوں نہ ھو اور اس کے عوض یہ ڈاکٹر ڈاکو مافیا عوام کی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر دولت کے پجاری بن جاتے ھیں اور ان کے ساتھ ساتھ عطائی ڈاکٹروں کی تو اپنی الگ ھی دنیا بسی ھوئی ھے جن کو انگلش پڑھنی نھی آتی وہ بڑے بڑے ھسپتال بنا کر لوگوں کو چیر پھاڑ کرنےمیں ً مگن ھیں مگر کوئی پوچھنے والا نھی اور اگر کوئی افسر ان سے پوچھ بھی لے تو اگلے دن اس کے نیچے وہ کرسی ھی نھی ھوتی کیونکہ ھمارے سیاسی نمائندوں کی ان کو مکمل پشت پناہی حا صل ھوتی . آخر ووٹ بھی کسی میڈیسن سے کم تو نھی. اسی لیے تو گلی محلوں میں ایسے عطائی ڈاکٹروں نے اپنے اپنے سٹال لگائے ھوئے جن کے ذریعے وہ سادہ لوح عوام کی چیر پھاڑ بھی کرتے ھیں اور من مرضی کے پیسے بھی بٹورتے ھیں اور رھی بات ھمارے محکمہ ھیلتھ کی تو وہ ان ڈاکوؤں کو مکمل پناہ دینے میں آخری حد تک گزر جاتے ھیں کیونکہ ھر مہینے ان کی منتھلی بھی پکی ھوتی ھے اسی طرح یہ محکمہ بھی ان کی اس ڈکیتی میں برابر کا شریک ھوتا ھے. اب بات کرتے ھے ڈاکوؤں کی اگلی نسل کی جو ھمارے معاشرے کے معزز ترین ڈاکو ھیں اور جن کی حفاظت بھی ھم خود کرتے ھیں انگریزوں کی ناجائز اولاد، ظالم جاگیرداروں، سود خور صنعتکاروں، منافع خور سرمایہ داروں، عیاش و اوباش وڈیروں کی صورت میں خوش لباس لیموزینوں میں گھومتے ڈاکو تو ہیں ہی کہ مزدوروں، کسانوں، ہاریوں کے خون کے آخری قطرے کو بھی شرابوں میں ملا کر پینے پر تلے ہوئے ہیں اور تما م اداروں بشمول حکومتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مگر دن دیہاڑے لوٹنے والے واپڈہ کے ڈاکوؤں کی یہ انوکھی قسم ھے جو دن دیہاڑے لوٹ رہی ہے۔ ملک کے لاکھوں معذوروں، بوڑھوں، بیواؤں اور ہزاروں یتیموں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔ 2 ماہ کے جعلی خود ساختہ بلوں کے ذریعے 32ارب روپے بڑی بڑی توندوں والے واپڈہ کے چپڑاسی سے لے کر آفیسران کی توندوں میں حصہ بقدر جثہ سنپولیوں کی طرح گھس گیا ھے مگر ھمارے حکمرانوں نے اپنے کاروبار ,اور انڈسٹریاں لندن اور دوسرے ممالک ٹرانسفر کر کے ملک پر احسان عظیم کرتے ھوٰے اس ڈکیتی میں برابر کے حصے دار بنے ھوئے ھیں .ھے کوئی ایسا قانون جو ان ٹیکیکل ڈاکوؤں کوپکڑ سکے ھاھاھا ارے نہ بابا نہ یہ ڈاکو نھی یہ ھماری ملک کی اشرافیہ میں شمار ھوتے ھیں
جس کو شرعام بھی ڈکیتی کرنے کی اجازت دی ھوئی ھے.
اب کچھ ھی دنوں کی بات ھے کہ بجلی چند روپے فی یونٹ مہنگی کردی گئی گو کہ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ ایسا نہ ہوگا مگر چور چوری سے جائے گا ہیرا پھیری سے نہ جائے گا، کسی نہ کسی صورت واپڈہ کے جیب کترے بلوں میں مزید یونٹ جمع کرکے جو ٹارگٹ حکمرانوں نے دے رکھا ھے اسے لازماً مکمل کریں گے اور واپڈہ کی افسر شاہی اپنا حلوہ مانڈا بھی ہر صورت جاری رکھے گی۔یہ نیا ڈاکہ کھلے روشن دنوں میں ایکولائزیشن سرچارج کے نام سے ڈالا جارہا ھے۔ پہلے بھی ٹی وی فنڈز کے نام سے رقوم وصول کی جاتی ہیں حتیٰ کہ مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس عربیہ جہاں پر ٹی وی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہاں سے بھی اس مد میں رقوم وصول کی جاتی ہیں اس طرح سے مزید کئی ارب روپے وصول کر کے ایسے روشنی پھیلانے والے ڈاکوؤں کے پیٹ میں چلا جاتا ھے جس کا کوئی حساب کتاب نھی ھے
ان ننگے ڈاکوؤں کے سرعام ظلم کی وجہ سے غریب عورتوں کی بلوں کو دیکھ کر خودکشیاں دیکھنے میں آرہی ہیں مگر واپڈاکے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ قتل کا اندراج آج تک نہیں کیا گیا نہ ہی کسی کوتختہ دار پر لٹکایا گیا۔اگر ایک بھی واقعہ کی ایف آئی آر کے ذریعے ایسا کرڈالا جاتا تو واپڈہ کے ان ڈاکوؤں کو سمجھ آجاتی اور وہ دن دیہاڑے ڈکیتیوں سے باز آجاتے ۔حکمران اگر واقعی کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی عمل کرنا چاہتے ہیں تو اپنا تمام بیرون ملک موجود سرمایہ یہاں لائیں اور پھر واپڈا کے اعلیٰ افسران کے اثاثے چیک کروائیں تو حیرت انگیز انکشافات ہونگے ۔بل زیادہ ڈال کر بل وصول کرنا تو جیسے افسران بالا کا حکم ہی ھے اور ہر مہینہ اس پر پورے خلوص سے میٹر ریڈر عمل کرتے ہیں، پھر غریب صارفین ایس ڈی او کے دفاتر کے چکر لگانا شروع کردیتے ہیں کئی دنوں کی بھاگ دوڑ سے اور کئی دفاتر ایکس ای این اور ریونیو وغیرہ کے پھیرے لگا کر اگر بل درست ھوتا بھی ھے تو وہ بھی آدھا بل کرکے احسان عظیم کرکے بل درست کیا جاتا ھےاس کے بعد اگلے ماہ پھر وہی گھن چکر شروع ہوجاتا ھے۔جاہل اور غریب افراد تو محکمہ کے دفاتر کے اندر جھانک کر بھی نہیں دیکھ سکتے اس لئے وہ گھروں میں بیٹھے چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں اور ہر حکمران کو صلواتیں سناتے رہتے ہیں لیکن وہ انکے کسی کام نہیں کہ اگر بل ادا نہ کیا جاسکا تو واپڈا ملازم آئندہ ہفتہ میٹر اتارنے پہنچ جاتے ہیں اور یہ سرکل یونہی گھومتا رہتا ھے ۔ کیا وزیر اعظم ہاؤس اور صدارتی محل کا کروڑوں روپوں کا بل جمع ہوچکا ھے وہاں سے میٹر کیوں نہیں اتارے جاتے کہ وہاں پر موجود” برف کی سلوں” پر بلیوں کے پیر جلتے ہیں۔واپڈا حکام نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو امید قوی ھے کہ آئندہ آنے والے حکمران اس سفید ہاتھی کو مکمل طور پر دفن کردیں گے۔
تمام افسرشاہی ملازمین فارغ ہوجائیں گے صرف میٹر ریڈر ، بجلی کی مرمت کرنے والے رہ جائیں گے کہ باقی سارا کام تو کمپیوٹر کرہی رہا ہے جس کیلئے ایک آدمی کافی ھے لیکن اس ساری صورتحال کے اصل ملزم تو موجودہ حکمران ہی ہیں کہ چور چوری کر ہی نہیں سکتا جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو۔ چور اور کتی ملتے ہیں تو واردات ہوسکتی ہے ۔سست کاہل نکمے کرپٹ ایم این اے ، ایم پی اے ہوں اورحکمران انکے سرپرست تو پھر یہ ڈکیتیاں واپڈہ ہی میں نہیں تمام محکموں میں جاری و ساری رہیں گی .کیا یہ اجالے کے ڈاکو نھی اگر ایسا ھی ھے تو اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں کہ پانچ ایکڑ کا مالک الیکشن جیت کر ھزاروں ایکڑوں کا مالک کیسے بن گیا کیا جمھوریت میں جادوگری ھے کہ چھو منتر پڑھا اور تو زمین پھیلتے پھیلتے ھزاروں ایکڑوں تک پہنچ جاتی ھے ویسے قوم کے ساتھ عجیب ڈکیتی ھے پر ان کے لیے قانون صاحب خاموش ,پالیسی میکروں نے بھنگ پی ھوئی ھے کیونکہ یہ جادو ادھر بھی پوری طرح جوھر دیکھاتا ھے . اسی طرح سندھ اسمبلی میں سیاسی دہشت گردوں کو بچانے کا قانون پاس کرنا ان جمہوری طوطوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو جمہوریت جمہوریت کرکے دماغ کا دہی بنا دیتے ہیں۔ایک ڈاکو کو گلی میں عام لوگ مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں لیکن وہی لوگ سیاسی ڈاکووں کے لئے بھنگڑے ڈالتے ہوئے اور ووٹ دیتے ہوئے اپنے گلے پھاڑ دیتے ہیں نعرے لگاتے ہوئے۔اور وہی ڈاکووں اس بوسیدہ نظام اور قانون کی اڑ میں انہیں کے حقو ق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔یہ قوم مار کھانے اور لٹنے پر خوش ہو نے والی قوم ھے۔یاد رکھیں یہ تنقید کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے نھی بلکہ ان تمام کے لیے ھے جو اہنی باریاں لے چکے ہیں اور کچھ موجیں کر رھے ھیں اور کچھ
اپنی باری کو پکا کرنے کے لیے عام عوام کو بندروں کی طرح نچا کر تماشا کر رھے ھیں اب تھوڑی سی مغز ماری ٹھکیداری نظام پر بھی کرتے ھیں کی دن کےڈاکوؤں میں ان کا کیا مقام ھے جو سارا دن بڑے سیاستدانوں کے تلوے صرف ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے لے کر دن دیہاڑے عوام کے پیسوں کو لوٹتے نظر آتے ھیں سر کا ری اورغیر سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن مافیا کا راج بر قرار ھے٬کمیشن کئی گنا بڑھانے کا انکشاف بھی ھوتا دیکھائی دے رھا ھے٬ منصوبوں میں ناقص میٹریل استعمال کیا جارہا ہے٬مانیٹرنگ چیک کرنے والے خودکمیشن کھا رھے ہیں٬کام کی نگرانی انجینئرز کے بجائے کلاس فور کے ملازمین کے حوالے کردی گئی ھے اور تمام محکموں کے آفیسروں کو گرمی کی وجہ سے سن سٹروک کا خدشہ پیدا ھو جاتا ھے اس لیے ڈھنڈے کمروں میں بیٹھنا ان کی مجبوری اور ٹھکیداروں کی بھلائی ھے تاکہ وہ آسانی سے لوٹ مار کر تے رھیں ۔ ٹھیکوں میں کمیشن کا مکروہ دھندہ عروج پر ھےبہتی گنگا میں غیر سرکاری وسرکاری اہلکاربھی ڈبکیاں لگا کر مزے لے رھے ھیں تمام ورکس ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگرمحکموں کے اہم سرکاری افسران کے پوسٹوں پر جونیئرز افسران کی تعیناتیاں مایوس کن اقدام ھے٬ کیا سبھی کام اجالے کی ڈکیتیاں نھی ھیں ان کے کو ٹھیک کرنے کے کب کوئی مسیحا جنم لے گا جو ملک کے اس دیمک زدہ ماحول کو ان اجالے کے ڈاکوؤں سے بچا کر عوام کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کا معیار زندگی بلند کر سکے پر مجھے تو دور دور تک ایسے کوئی آثار نظر نھی آرھے کیونکہ جب تک جمھوریت کی بین بجانے والے زندہ ھیں دن کے یہ ڈاکو ڈاکے ڈال کر عوام کو لوٹتے رھیں گے ادھر میرے دماغ میں ایک وزیر صاحب کی بات یاد آگئی چلتے چلتے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا چلوں .ھوا کچھ یوں کہ
ایک نیا نیا سیاستدان کسی ملک کا ﻭﺯﯾﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ نا تجربہ کار ﺗﮭﺎ تو اسے ﺭﺷﻮﺕ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮنی بھی ﻧﮩﯿﮟ آتی تھی۔ ایک دن ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ ﺑﯿﺲ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍٓﻭٔ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻧﮧ ﺗﺎﻭٔ ‘ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﻞ ﻣﻨﮕﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ Approved ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﻓﺎﺋﻞ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ۔ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺯﯾﺮ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ؟ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﺎ ﺍُﺗﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﮐﻠﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﮔﮍ ﺑﮍ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺯﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ‘ ﺣﻀﻮﺭ ! ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﻣﮕﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻭﺯﺍﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭼﻼ ﺭﮨﺎ ھﻮﮞ۔ ﺍٓﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ‘ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻞ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﻞ ﺍﭘﺮﻭﻭ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺭﮨﺎ۔ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻓﺎﺋﻞ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﻟﯿﮟ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺏ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﭩﻨﮓ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﺮﻭﮞ.ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﻨﺎﺏ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ھﻮﮞ ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﭩﻨﮓ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﻓﺎﺋﻞ ﻭﺍﭘﺲ ﺍٓﺋﯽ۔ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍٓﭖ ﺍﺱ Approved ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ Not ﻟﮑﮫ ﺩﯾﮟ۔ ﻣﻘﺼﺪ ﭘﻮﺭﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﭩﻨﮓ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺑﮭﺎﮔﺎ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺲ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﺑﺮﯾﻒ ﮐﯿﺲ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﻭﺯﯾﺮ ﭘﮭﺮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﺑﻮﻻ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﺍ ﯾﮧ ﻭﺯﺍﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭼﻼ ﺭﮨﺎ ھﻮﮞ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﮞ Not ﻟﮑﮭﺎ ھﮯ ﻭﮨﺎﮞ ” ﭨﯽ ‘‘ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ” ﺍﯼ ‘‘ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ Not ﮐﻮ Note ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮟ۔ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ Note Approved ۔ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻦ ﮐﯽ ﻣﺮﺍﺩ ﭘﺎﺋﯽ۔ ویسے میں نے بھی سنا ھے ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﮑﻤﮯ ﻭﺯﺭﺍﺀ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﭼﻼ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺋﯽ ﮐﯿﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻭﺯﺭﺍﺀ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ھوتا ھے .
اب پھر ہم دعا ھی کرتے ہیں جیسے مسجد سے کسی کی چپل چوری ہو اگر چور ہاتھ لگ جائے تو سب نمازی اسے مارنا شروع کردیتے ہیں اگر ہاتھ میں نہ آئے تو ہم ٹھنڈا سانس لے کہ کہتے ہیں اللہ چور کو ہدایت دے اور چور کے نیک بننّے کی دعائیں دیتے ہیں اب آگے رخ کرتے ہیں کیا اگر ہمارے ملک کا نظام دعائیں پورا کرتی ہیں تو ہماری پھر کارکردگی کیا ہیں ہمیں اپنے تھانے ہسپتال پارلیمینٹ ہاوٴس وزیراعلیٰ گورنر اور وزیراعظم ہاوٴس بند کرکے وہاں مسجدیں بنا دینی چاھیں اور بارڈر پہ فوج کو ہٹا کر مولویوں کو دعائیں مانگنے کے لیے بیٹھا دینا چاھیں جو ایجنسیاں اور ادارے اپنی ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پہ ڈالتے ہیں آخر یہ لوگ کب تک ہم لوگوں کے قتل پہ خاموشی اختیار کرے گے معصوم شہری مرتے ہیں اور ہمارے عوامی نمائندےفوٹوگرافروں کی ٹیم لے کہ فوٹو شوٹ کروانے پہنچ جاتے ہیں اور حاتم طائی کی اولاد بن کے دو تین دن کہ سوگ کا اعلان کردیتے ہیں اور اس سوگ میں بچارے غریب پھر اپنی دیہاڑی سے محروم ہوجاتے ہیں آخر میں میں بھی پرامن شہری کی طرح بس یہ کہوں گا کہ اللہ ہم لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے جو ہم نے بیوقوفی کی ہیں ملکی الیکشن میں اللہ ہمیں معاف فرما اور اندھیرے اور اجالے کے ڈاکوؤں سے ھم کو محفوظ فرما اور ھمارے پیارے وطن عزیز کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی جیسا حکمران اور مسیحا بھیجے تاکہ عوام اندھیرے کے ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ اجالے کے لیٹروں سے بھی محفوظ رہ سکیں اگر کسی کو میری کوئی بات بری لگی تو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا ھوسکتا ھے وہ بری بات اچھائی بن کر آپ کی نجات کا ذریعہ بن جائے ۔ اب اجازت باقی پھر کھبی اللہ رب العزت سے دعا کرتا ھوں کہ ھم سب کو باعزت روزگار اور پرھیز گار بنا کر ھماری تمام مشکلیں حل فرما ئے اور ھمارے پیارے وطن عزیز کا پرچم سدا بلند فرما کر ھمارے اندر چھپے ھوئے دشمنوں سے حفاظت فرما کر اپنی حفظ و پناہ میں رکھے. آمین
دعاگو:میاں رزاق اے آر وآئی نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button