نیوز وی او سی

انتشار کے سائے

کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ
ہمارے ہاں الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی حکومت مخالف مہم شروع ہو جاتی ہے۔دھاندلی کے الزامات کا اتنا شور مچایا جاتا ہے کہ عام شہری کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے اور شفاف انتخابات کو بھی شک کی نظر سے دیکھنا شرع کر دیتا ہے حالانکہ الزام لگانے والے خود بھی اسی سسٹم کے تحت منتخب ہو تے ہیں جس کے خلاف وہ الزامات کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔خود جیت جاؤ تو انتخابات شفاف اور اگر مخالف جیت جائے تو انتخابات دھندلی زدہ۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی جماعت اپنی شکست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہو تی۔ ان کے پاس اپنی خفت مٹانے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جیتنے والے پر الزامات کی اتنی شدید بارش کرو کہ اس کی جیت متنازع بن جائے۔الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی جیتنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کی روش کا آغاز ہو جاتا ہے جسے میڈیا مزید مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتا ہے کیونکہ مرچ مصالحہ کے بغیر اس کی پرا ڈکٹ نہیں بکتی۔ میڈیا حکومت مخالفین کے نقطہ نظر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور غیر جمہوری عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹانگہ برداراور کاغذی جماعتیں ہمہ وقت میڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں کیونکہ اس سے میڈیا کو حکومت کو دباؤ میں رکھنے کا موقعہ نصیب ہوجاتا ہے جسے وہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتا ہے۔میڈیا کا ٹارگٹ حکومت سے مفادات کا حصول ہوتا ہے جو صرف اس کی ٹانگیں کھینچنے سے پورا ہو سکتا ہے اس لئے میڈیا اسی راہ کا انتخاب کرتا ہے۔اس حربے سے میڈیا کو حکومت کی جانب سے اشتہارات کی صورت میں بڑا حصہ مل جاتا ہے اور یوں اس کے کاروبار میں دن دگنی رات چگنی ترقی ہو جاتی ہے۔پاکستان میں چونکہ سنسی خیز خبر یں زیادہ بکتی ہیں اس لئے میڈیا سنسنی خیزی میں مزید اضافہ کا موجب بن جاتا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تحمل،صبر،برد باری، برداشت اور رواداری کا کلچر کمزور ہو تا جا رہا ہے۔بد زبانی،گالم گلوچ اور عدمِ برداشت کے مظاہر ہر سو اپنے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں جس سے معاشرہ امن و سکون کی دولت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں جمہوریت ابھی مستحکم نہیں ہو سکی کیونکہ یہاں پر اپنی ہار کو تسلیم کرنے کا ابھی تک کسی میں حوصلہ پیدا نہیں ہو سکا۔جب ہر کوئی خود کو طورخم خان سمجھے گا تو پھر وہ ہار کو کیسے قبول کرے گا؟۔در اصل ہمارے ہاں کسی کو ووٹ کے تقدس کا کوئی احساس نہیں ہے۔برطانیہ کا وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ریفرینڈم میں شکست پر مستعفی ہو جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں عوامی رائے کو تسلیم کرنے کی بجائے دھاندلی کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔مغرب میں ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے جبکہ ہمارے ہاں مینڈیٹ کو رسوا کر کے حکومت گرانے کے جتن کئے جاتے ہیں۔ایسا کرنے کی بے شمار وجو ہات میں سے ایک وجہ وہ کرپشن زدہ نظام ہے جس کی موجودگی میں حکمران طبقے ملکی دولت کو لوٹتے ہیں۔انتخابات میں ہار کی صورت میں حکمرانوں کی سونے کی کان بند ہو جاتی ہے جس پر وہ تلملاتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے اقتدار میں آنے کے منصوبے بناتے ہیں۔اگر ہمارے ہاں احتساب کا موثر نظام ہو اور جوابدہی ہمارے معاشرے کا سنہری اصول ہو تو جمہوریت بھی مضبوط ہو جائے کیونکہ پھر اللے تللوں سے دولت لوٹنے کہ راہیں مسدود ہو جا ئیں گی۔جس دن اقتدار دولت بنانے کی مشین نہیں رہے گا اس دن اقتدار کی ہوس میں بھی کمی واقع ہو جائیگی جس سے معاشرے میں سکون اور ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو جائیگی اور مینڈیٹ کا احترام بھی اپنی جڑیں مضبوط کریگا۔حکومت کی اتھل پتھل اور مخالفین کو نیچا دکھانے کی روش کی بدولت کچھ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھو میں کھلونا بنی رہتی ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کو ابھی ایسے مہروں کی ضرورت ہوتی ہے جوان کے اشاروں پر ناچیں۔غیر جمہوری عناصر اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کی نظرِ عنائت سے اپنا وجود بر قرار رکھتے ہیں۔اگر اسٹیبلشمنٹ ان کے شانوں سے اپنا ہاتھ اٹھا لے تو وہ بالکل غیر اہم بن جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ در اصل انہیں توانا بنا کر پیش کرتی ہے اور یوں فیصلہ سازی میں اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔ہمارے ہاں تو اسٹیبلشمنٹ ایک منہ زور گھوڑے کی مانند ہے جس سے حکمران بھی خائف رہتے ہیں کیونکہ وہ چٹکیوں میں بے گناہ کو گناہ گار ثابت کر سکتی ہے۔جس ملک میں وزیرِ اعظم کو اقامہ پر فارغ کر دیا جائے وہاں پر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اندازہ لگانے میں چندان دشواری نہیں ہونی چائیے۔،۔
ہمارے ہاں دھرنوں،جلسوں اور لانگ مارچ کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کی کارستانی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ کسی خاص جماعت کے ساتھ مختصص نہیں ہے بلکہ ملک کی چھوٹی بڑی ساری جماعتیں اس حمام میں ننگی ہیں۔جب اقتدار مطمع نظر بن جائے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کا ہرکار ہ بننے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔کبھی پی پی پی،کبھی مسلم لیگ (ن)، کبھی پی ٹی آئی،کبھی جماعت اسلامی، کبھی عوامی تحریک،کبھی ایم کیو ایم،کبھی متحدہ مجلسِ عمل اور کبھی چھوٹی چھوٹی مذہبی اور علاقائی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی وساطت سے اقتدار میں آنے کیلئے متذکرہ بالا حربوں کا ارتکاب کرتی ہیں۔کیا پی پی پی نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف ۳۹۹۱؁ میں لانگ مارچ نہیں کیا تھا؟ کیا مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی حکومت کے خلاف ۶۹۹۱؁ میں دھرنا نہیں دیاتھا؟ عدلیہ بحالی تحریک کیلئے میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں نکلنے والے لانگ مارچ کے تو ہم سب گواہ ہیں۔کیا پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے اگست ۴۱۰۲؁ میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف مشترکہ لانگ مارچ اور دھرنا نہیں دیا تھا؟جماعت اسلامی تو ہمہ وقت دھرنوں اور لانگ مارچوں میں مصروف رہتی ہے لہذا اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سارے جتن حکومت کو جھکانے اور کمزور کرنے کے حربے ہیں تا کہ حکومت یکسوئی سے عوامی مسائل کے حل کی سنجیدہ کوششیں نہ کر سکے۔اپو زیشن عوام کو کرپشن، لوٹ مار اور دھاندلی کے نام پر حکومت مخالف تحریک کی آگ میں جھونکتی رہتی ہے اور یوں جمہوریت کے وہ سارے ثمرات جو بہتر گورنس سے ظہور پذیر ہو سکتے ہیں باہمی جھگڑوں، چپقلش اور مناقشت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں تنقیدخوبصورتی کی حامل تصور ہوتی ہے۔ اگر تنقید سے مراد اصلاح ہو تو یہ انتہائی مجرب نسخہ ہے لیکن اگر اس سے مقصود انتشار اور تقسیم کو ہوا دینا ہو تو یہ زہرِ قاتل ہے۔ہمارے ہاں باہمی ا نتشار ہی ہماری قومی پہچان بنا ہو اہے۔ ہر کوئی سڑکوں کو فیصلوں کا محور بنائے ہوئے ہے۔ جسے دیکھو دھرنوں کا گرز اٹھائے دوسرے کو مار دینے کیلئے بیتاب ہے۔ ایک ٹولی دھرنے سے اٹھتی ہے تو دوسری ٹولی دھرنے کیلئے پر تولنا شروع کر دیتی ہے۔پارلیمنٹ جسے عوام منتخب کرتے ہیں کسی بیوہ کا منظر پیش کر تی ہے اور دھیرے دھیرے غیر فعال ہوتی جا رہی ہے۔ چوراہے،چوک اور سڑکیں اب فیصلہ سازی کا نیا مرکز قرار پا رہی ہیں۔ابھی تو چند دن پہلے لبیک یا رسول اللہ ﷺ نے جس طرح فیض آباد چوک میں دھرنا دیا اور وزیرِ قانون کومستعفی ہونے پر مجبور کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔پیر سیالوی رانا ثناء اللہ کے استعفی کیلئے بھی ایک نئے دھرنے کیلئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔انھیں کسی کے اشیر واد کا انتظار ہے جس دن وہ اشیر واد مل گیا ان کا دھرنا بھی ہماری نگاہوں کو جلا بخشے گا۔ علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری ۷۱ جنوری کے جلسے کے بعد ایک تاریخ ساز دھرنے کے حتمی انتظامات میں جٹے ہوئے ہیں۔وہ کینیڈا سے تشریف لاتے ہیں اور چند روزہ احتجاجی دھرنوں کے کرتب دکھاکر غائب ہو جاتے ہیں لیکن اس دفعہ لگتا ہے کہ ۸۱۰۲؁ کے انتخابات سے قبل حکومت مخالف جماعتوں کو لاشوں کی ضرورت ہے اس لئے وہ علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہیں۔ کیا ان کی تھپکی رنگ لائے گی اور ہماری شاہرائیں ایک دفعہ پھر خون سے لت پت ہو جائیں گی؟جاگتے رہیے گا۔یہ تماشہ آئیندہ چند روز میں ہو نے والا ہے۔،۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button