ایڈیٹرکاانتخاب

امریکی نئی پالیسی ڈرون حملے بڑھاؤ,امداد گھٹاؤ

افغان عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کیلئے دفاعی تعاون کا گراف نیچے لانے اور اہم غیر نیٹو ملک کی حیثیت سے ملا ہوا درجہ گھٹانے کا بھی امکان
اقدامات لاحاصل ، پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی پچھلی کوششیں بھی ناکام رہیں، امریکی حکام، پاکستان کا تبصرے سے انکار واشنگٹن (خبر ایجنسیاں) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے رفقائے کار نے پاکستان سمیت کئی ممالک کے لیے پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ برطانوی خبر رساں ادارے ‘‘رائٹرز’’ نے بتایا ہے کہ پالیسی کا سختی سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ سخت تر اقدامات کے ذریعے امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے ۔ افغانستان میں حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان میں ڈرون حملے تیز کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی امداد گھٹانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ ممکنہ طور پر پاکستان سے دفاعی نوعیت کا اشتراک عمل بھی گھٹا سکتی ہے ۔ غیر نیٹو اتحادی ملک کی حیثیت سے پاکستان کو حاصل خصوصی درجہ بھی گھٹایا جا سکتا ہے ۔ بعض امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات لاحاصل ہیں۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی امریکی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ بڑھتے ہوئے امریکا بھارت تعلقات سے بھی معاملات خراب ہوئے اور پاکستان کے ساتھ کسی پیش رفت کے امکان کو نقصان پہنچا ۔ امریکی محکمہ دفاع نے اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے معذرت کر لی ہے ۔ امریکی محکمہ دفاع پنٹا گون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ امریکا اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف امور میں شراکت دار ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس خبر سے متعلق موقف نہیں دیا ۔ ایک امریکی اعلیٰ افسر نے بتایا کہ ٹرمپ اتنظامیہ علاقائی حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے جسے جولائی کے وسط میں منظر عام پر لایا جائے گا۔ امریکا نے پاکستان سے متعلق جامع پالیسی کبھی تشکیل دی ہی نہیں ۔ اب جو پالیسی بنائی جائے گی اس میں واضح ہو گا کہ ہم پاکستان سے چاہتے کیا ہیں ۔ امریکا میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں اس بار امریکا کی پاکستان سے متعلق پالیسی کافی سخت ہو گی ۔ ایک پاکستانی اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان مزید شرائط یا پابندیاں مان نہیں سکتا کیونکہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ استعداد سے بڑھ کر ہے ۔ ایسے میں امریکا یہ تو نہیں چاہے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ ہو جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button