امریکی عدالت نے ٹرمپ کا ایک اور حکم نامہ معطل کردیا
سان فرانسسکو: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالتی محاذ پر ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ سان فرانسسکو میں فیڈرل کورٹ نے غیر ملکی تارکینِ وطن سے رعایت برتنے والے شہروں کے خلاف پابندیوں کا نیا صدارتی حکم نامہ معطل کردیا ہے۔
امریکا میں تقریباً 200 شہروں اور علاقوں کو ’’سینکچوئری سٹیز‘‘ (Sanctuary Cities) کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں غیر ملکی تارکینِ وطن کے ساتھ رعایت برتی جاتی ہے اور ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی۔
دیگر ممالک سے امریکا آنے والے قانونی اور غیر قانونی، دونوں طرح کے تارکینِ وطن خود کو ان شہروں اور علاقوں میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں وہاں مقیم ہیں کیونکہ اگر مقامی پولیس انہیں پکڑ بھی لے تب بھی ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کس ملک سے آئے ہیں اور وہ امریکا میں قانونی طور پر مقیم ہیں یا غیرقانونی طور پر۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت تمام امریکی ریاستوں، شہروں اور قانونی عمل داریوں (jurisdictions) کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی حدود میں مقیم غیرملکی تارکینِ وطن سے متعلق ساری معلومات ہوم لینڈ سیکیوریٹی ڈیپارٹمنٹ اور دوسرے متعلقہ وفاقی اداروں کو فراہم کریں۔
البتہ اس نئے صدارتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو شہر اور علاقے اس پر عمل نہیں کریں گے انہیں وفاق سے جاری ہونے والے فنڈز کا بڑا حصہ روک لیا جائے گا جس کی مجموعی مالیت کئی ارب ڈالر بنتی ہے۔ امریکا میں سان فرانسسکو کی سانتا کلارا کاؤنٹی نے عدم تعاون پر پابندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان پابندیوں کا مقصد کاؤنٹیز کو دھمکانا اور دباؤ میں رکھنا ہے۔
فیڈرل کورٹ سان فرانسسکو کے جج ولیم اورک نے اس مقدمے میں صدارتی وکیل کے دلائل سننے کے بعد انہیں مسترد کردیا اور صدارتی حکم نامہ معطل کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ اگرچہ غیر ملکی تارکینِ وطن کی معلومات سیکیوریٹی اداروں کو فراہم کرنا ضروری ہے لیکن ایسا نہ کرنے پر شہروں اور کاؤنٹیز کے فنڈز نہیں روکے جاسکتے۔