امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف سب سے خطرناک قدم اُٹھالیا، یہودیوں کو خوش کردیا،
واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل فلسطینی ریاست کے وجود کا امکان مٹانے کے لیے اپنا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا چاہتا ہے، جس کی راہ میں اب تک امریکہ حائل تھا، کیونکہ اس نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو سفارتخانہ یروشلم منتقل کر دیں گے۔ اب انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا یہ وعدہ ایفاءکرنے پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے جس سے مسلم دنیا اور امریکہ کے مابین تعلقات کی کشیدگی عروج پر پہنچنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس کا مکین ہونے کے تیسرے روز ہی وائٹ ہاﺅس کے ترجمان کی طرف سے بیان جاری کر دیا گیا ہے کہ ”امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے تاہم یہ مذاکرات تاحال ابتدائی مرحلے میں ہیں۔“
فلسطین یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے لیکن درحقیقت یروشلم آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا جائز اور قانونی حصہ اور دارالحکومت ہے۔ اگر دنیا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے فلسطینی ریاست کے وجود کا امکان ختم ہو جائے گا اور پورے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مذہبی، ثقافتی اور تاریخی حوالے دے کر اس شہر کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فروری میں ملاقات کے لیے واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے۔ دوران گفتگو دونوں رہنماﺅں کے مابین ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے، فلسطینیوں کے ساتھ حصول امن کے طریقہ¿ کار اور دیگر مسائل پر گفتگو ہوئی۔“ اس گفتگو پر وائٹ ہاﺅس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو کے ساتھ گفتگو عمدہ رہی۔ انہوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن دونوں فریقوں کے براہ راست مذاکرات سے ہی آ سکتا ہے۔“رپورٹ کے مطابق امریکہ کی طرف سے سفارتخانے کی منتقلی پر مذاکرات شروع کرنے سے امریکی اتحادیوںسعودی عرب، اردن، مصر و مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرف سے شدید احتجاج متوقع ہے۔