امریکا اورچین میں تجارتی جنگ، پاکستان پر کیا اثر ہوگ
لاہور(نیوز وی او سی) امریکا اور چین میں ابھی تک تجارتی جنگ شروع نہیں ہوئی تاہم سرمایہ کاروں نے صدر ڈونلڈٹرمپ کی چینی مصنوعات پر مزید ٹیرف اور دیگر نوع کی تجارتی بند شیں عائد کرنے کی دھمکیوں کے بعد امریکی حصص بازاروں سےنکلنا شروع کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ دھمکیاں چین کی جانب سے گزشتہ بدھ 4اپریل کو 106امریکی مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کئے جانے کے بعد دیں۔ایک روز بعد ٹرمپ نے امریکی تجارتی نمائندوں کو چین کیخلاف 100ارب ڈالر کے اضافی ٹیرف پر غور کیلئےکہا۔بیجنگ نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ آخرتک اس کا مقابلہ کریگااورکوئی قیمت ادا کرنے سےنہیں ہچکچائے گا۔ان اقدامات کے ردعمل میں حوابی حملے اور نئے جامع اقدامات کیلئے پر عزم ہے۔یہ بات برطانوی اخبار’’دی گارچین نے اپنے ایک تازہ شمارے میں بتائی۔کیاپاکستان کو اس پر تشویش ہونی چاہئے؟اگر پاکستان اورامریکامیں تجارتی اعدادو شمارکودیکھاجائے تو پاکستان کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ 2017ء میں دونوں ممالک میں باہمی تجارت کا حجم صرف 6ارب ڈالر تھالیکن اسکےبعدصدرڈونلڈٹرمپ کے آنے بعد پاک امریکا تعلقات میں تاریخی گراوٹ آئی ۔ ان کے نائب صدر دفاع خارجہ وزراء اور سلامی شہر اور دیگر سینئر عہدیداروں نے پاکستان کی جانب سے امریکا کی قیادت میں طالبان کو جنگ میں ہرانے کیلئے ہچکچاہٹ کے مظاہرے پر امریکی اقتصادی اور عسکری تعاون کی معطلی کا امکان ظاہر کیا بیجنگ اور اسلام آباد کی بڑھتی دوستی سےو ائٹ ہائوس کی مخالفت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔یاد رہے کہ جنوری 2018ء میں امریکا نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو توڑنے اور انکی محفوظ تباہ گاہوں کیخلاف کارروائی میں ناکامی پر پاکستان کی 2ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد معطل کر دی تھی ۔اس 2ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد میں سے 900ملین ڈالر کو لیشن سپورٹ فنڈ کے مالی سال 2017ء کے لئے تھے پاکستان کیلئے ہر طرح کی سکیورٹی تعاون کو ختم کرنے کا اقدام ڈونلڈ ٹرمپ کے سال نو کے ٹویٹ کے بعد ہوا میں انہوں نے پاکستان پر امریکا کو 15 سال میں 33ارب ڈالر کے بارے میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے دینے اور امریکا کو ’’دھوکے اور جھوٹ‘‘ کے سوا کچھ نہ دینے کا الزام لگایا پاکستان پہلے ہی اقتصادی انحصار واشنگٹن سے بیجنگ کو منتقل کر چکا ہے اس لئے اسے امریکا اور چین نے دوبارہ شروع ہوتی تجارتی جنگ میں واشنگٹن کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ عالمی نقشے پر دو اقتصادی طاقتیں ہیں فنانشل پاکستان ٹاسک فورس پاکستان کو پہلے ہی جون 2018ء کے بعد سے گلو بل ٹیرر فنانسنگ و اچ لسٹ پر ڈال چکی ہے اس لئے اسلام آباد کے بیجنگ سے بڑھتے تجارتی اور سیاسی تعلقات سے عالمی سپر پاور کو شہ مل سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنانسنگ کے فریم ورک میں خامیوں کی نشاندہی کرتا۔قانون کے نفاذ، سٹیٹ بینک اور سیکیوریٹنر اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کی طرف سے مالیاتی شعبے کے لئے قواعد اور رہنما اصولوں کے اجراء اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے قیام وغیرہ جیسے الزامات کے باوجود واشنگٹن ڈی سی پاکستان پرببانگ دہل ایسے ملک کا لیبل لگاتا رہے گا جہاں دہشت گرد تنظیموں کو اب بھی فنڈز حاصل کرنے کی اجازت ہے ایسے میں جبکہ 62ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے ذریعے تجارتی روابط مضبوط ہوئے ہیں نئے تحفظتی اقدامات اورٹیرف بیجنگ کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی عالمی سرمایہ کاری ترجیحات پر نظر ثانی کرے اس کے نتیجے میں بیجنگ سے سی پیک کے لئے فنڈز کا بہائو متاثر ہو سکتا ہے اور چین کے متعلقہ خطوں میں اقتصادی رابطوں کے پھیلائو سے امریکا کے مقابلے میں طاقت کا متبادل مرکز بننے کا دیرینہ خواب پورا ہونے میں تاخیر ہو سکتی ہے اس سے یقینا پاکستانمتاثر ہو گا کیونکہ سی پیک کے تحت اس کے ڈھانچہ جاتی منصوبوں میں بھی تاخیر ہو جائے گی جس کی بیجنگ سے مشکلات اور تجارتی مسائل بنیں گے اور یہ کہ پاکستانی پیشہ وار افراد کے لئے امریکا میں روز گار کے مواقع حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا اور جو لوگ وہاں پہلے ہی کام کر رہے ہیں انہیں بھی مزید روز گار جسے حصول میں مشکلات ہوں گی۔امریکا چین مخالفت میں بڑھاوے کی مختصر تاریخ:۔(5) اپریل 2018ء کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’چین کے غیر منصفانہ ردعمل ‘‘ کی روشنی میں وہ امریکی تجارتی نمائندے کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ’’جائزہ لیں کہ آیا 100ارب ڈالر کے اضافی ٹیکس لگانا مناسب ہو گا‘‘ اور نشاندہی کریں کہ اس سے کون سےمصنوعات متاثر ہونگی۔ 4اپریل 2018ء کو چین نے ایک ایڈ نی فہرست تیار کی جس میں امریکا سے سویابین اور کاروں کی اہم برآمدات سمیت دیگر ممکنہ جوابی اقدامات دیئے گئے۔صدرٹرمپ کا4اپریل کاٹویٹ:۔’’ہماری چین سےتجارتی جنگ نہیں ، یہ جنگ ہم سالوں پہلے بیو قوف یا امریکا کی نمائندگی کرنے والے نا اہل لوگوں کے باعث ہار چکے ، اب ہمیں ہر سال 500ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے جبکہ 300ارب کی حقوق دانش کے حوالے سے چوری الگ ہے ہم یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے‘‘(3)اپریل 2018ء کو امریکی انتظامیہ نے 1333چینی اشیاء کا اعلان کیا جن پر 25 فیصد اضافی ٹیکس لگائے گئے پولیس اے تو ڈے نے لکھا کہ ٹرمپ نے چین کی امریکا کو برآمدات پر 25فیصد ٹیرف لگایاجن میں ایروسپیس انفارمیشن و کمیونیکشن ٹیکنالوجی اور مشینری شامل ہیں گزشتہ پیر کو چین نے بہت سی امریکی اشیاء پرفیسیں لگائیں جن میں سکریپ ایلومنیم ، کند شراب اور سیب شامل ہیں تب ٹرمپ نے 1300چینی اشیاء پر ٹیرف کا وعدہ کیا چند گھنٹوں بعد چین نے مزید محصول لگا دیئے جن کا نشانہ بوئنگ طیارے تھے 23مارچ 2018ء کو امریکا نے سکیل اور الومینیم پر نئے محصولات لگائے امریکا کو سٹیل کے بڑے برآمدات کو اس سال ٹیم حتیٰ تک استثنیٰ دیا گیا مگر چین ان ملکوں میں شامل تھا جنہیں نشانہ بنایا گیا۔میزان اور اقتصادی خبروں پر خصوصی توجہ دینے والے 130سال پرانے جاپانی ملکیتی بین الاقوامی انگریزی اخبار ’’ فنانشل ٹائمز‘‘ نے لکھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری میں محصولات کے تازہ ترین دور میں شمیں پینلز اور ڈش واشرز کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد مارچ میں سٹیل اور ایلومینیم پر محصولات عائد کئے۔ اس ماہ شرائط ڈرامائی طور پر بڑھ گئیں جب امریکا نے چین سے 45ارب ڈالر کی کی درخواست پر محصولات لگائیں اور چین نے ممکنہ ردعمل کے لئے اپنی فہرست جاری کی صدر ٹرمپ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ چین کے غیر منصفانہ ردعمل ‘‘ کی روشنی میں امریکی تجارتی نمائندے کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ جائزہ لے کہ آیا 100ارب ڈالر کے اضافی محصولات مناسب ہوں گے‘‘ اور نشاندہی کرے کہ اس سے کون کون سی مصنوعات متاثر ہوں گی دنیا بھر میں 22لاکھ قارئین والے لندن کے اخبار نے مزید لکھا کہ امریکا اور چین کی محصولات کی تجاویز محض دھمکیاں ہیں مگر کاروباری لوگوں نے کہا کہ اگر یہ محصولات لگ گئے تو ان کی سیلز ، سرمایہ کاری اور روز گار کے مواقع بری طرح متاثر ہوں گے انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملک ایک مکمل تجارتی جنگ کو روکنے کے لئے کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔(بحوالہ /ذرائع:۔ امریکی انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن ، ہتیرسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس اور فنکشل ٹائمز )امریکا چین تجارتی شماریات اور عدم توازن:امریکا کی چین سے اشیاء اور خدمات کی تجارت کا حجم 2017ء میں 638 ارب ڈالر تھا اس میں تجارتی خسارہ تھا کیونکہ امریکا کی چین کو برآمدات محض 130.369ارب ڈالر اور چین سے درآمدات 506ارب ڈالرتھیں امریکا کی چین سے درآمدات میں الیکٹرانکس ، کپڑے اور مشینری شامل تھیں امریکی کی چین سے درآمدات امریکی تیار کنندگان کرتے جو کہ لاگت کے باعث خام مال بھیجتے جب وہ دوبارہ امریکا کیلئے جہاز میں رکھی جاتیں تو انہیں درآمدات سمجھا جاتا جنوری 2018ء کو چین کیلئے امریکی قرضہ1.17ٹریلین ڈالر تھا یہ غیر ملکوں پر مجموعی قرضے کا 19فیصد تھا بہت سے اقتصادی پنڈتوں کو تشویش تھی کے ان اعدادو شمار سے چین کو امریکی مالیاتی پالیسی پر سیاسی سبقت مل رہی ہے امریکی محکمہ تجارت کی طرف سے فروری 2018ء اس جاری کئے گئے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے نیویارک ٹائز نے لکھا کہ چینی اشیاء کی امریکا کو درآمدات اور امریکی اشیاء کی چین کو برآمدات میں فرق 2017ء میں 375ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو 2016 میں 342ارب ڈالر تھا اشیاء اور خدمات کی تجارت میں دینا سے امریکا مجموعی تجارتی خسارہ 2017ء میں 12.1فیصد بڑھ کر 566ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو 2008ء کے بعد سب سے بڑا فرق ہے۔موخر امریکی اخبار لکھتا ہے کہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ امریکی معیشت کی مصنوعی سے نبرد آزماہےجس کے ذریعے امریکی صارفین کو مزید درآمدی الیکٹرانک،کپڑے اور اپلائنسزحاصل کرنے میں مدد دی جاتی ہےگزشتہ سال امریکی ڈالر کی قدر میں کمی سےجہاں امریکی مصنوعات تارکین وطن کے لئے سستی ہو گئی ہیں وہاں برآمدات بڑھانے میں مدد ملی مگر بڑھتے خسارے سے بچنے کے لئے یہ سب کافی نہیں۔امریکا چین تجارتی رنجش کےممکنہ عالمی اثرات:’’دی گارجین‘‘ لکھتا ہے کہ تجارتی پابندیوں سے نا صرف دونوں ملکوں کو نقصان ہو گا بلکہ اس سےعالمی سپلائی کی کڑی متراثر اور دنیا بھر میں صارفین کے لئے قیمتوں میں اضافے ہو جائے گا سپلائی اور تقسیم کی کڑی میں کوئی تعطل عالمی تجارت کا اہم حصہ ہے اور اس کا طویل مدت اثر پڑ سکتا ہے۔ اس بدترین منظر نامے میں کمپنیوں کواپنی فیکٹریاں اور تقسیمی مراکز کے مقامات تبدیل کرنا ہوں گے سرمایہ کاری کے بارے میں فیصلوں کا روز گار پر اثر بڑے گا اور ٹیکس بڑھ جائیں گے اور ان کا کئی حوالوں سے محصولات کی نسبت زیادہ اثر ہو گا کیونکہ محصولات کے بارے میں فیصلے آسانی سے واپس لئے جا سکتے ہیں برطانوی میڈیا ہائوس مزید لکھا ہے کہ اس تنائو سے امریکا اور چین دونوں کی معیشت متاثر ہو گی کیونکہ ایپل جیسی عالمی کمپنیاں دونوں ملکوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں اس سے نا صرف امریکی کاروبار متاثر ہو گا بلکہ امریکی صارفین پر بھی اثر پڑے گا۔وال مارت جیسے ریٹیلرز چین سے اشیاء درآمد کرتے ہیں اس طرح قیمتیں بلند ہوں گے اور معیار زندگی سکڑ جائے گا اور جیسا کہ امریکی مصنوعات دنیا بھر میں فروخت ہوتی ہیں اگر وہ پارٹس کیلئے چین پر انحصار کرتی ہیں تو برطانیہ اور دنیا کے باقی حصول کے صارفین بھی متاثر ہونگے یہی بات چینی صارفین اور صنعتکاروں پر بھی لاگو ہوتی ہے خاص طور پر ایسے میں جب تقریباً آدھی چینی برآمدات غیر ملکی سرمائے سے چلنے والے کاروبار سے آتے ہیں‘‘جرمن کمپنیوں کے خدشات:فنانشل ٹائمز کے مطابق جرمن کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ انہیں امریکی صدر کے عائد کردہ امپورٹ ٹیرف شدید کولیٹرل نقصان ہو گا کیونکہ چین میں قائم انکے ڈبل اداروں کی تیار کردہ مشینری اور کاریں جو امریکی کو برآمد کی جاتی ہیں کو بھی اسی قدر نقصان پہنچے گا جتنا چینی مصنوعات کو برآمدات پر چلنے والی معیشت جو کہ اوپن بارڈرز اور فری ٹریڈ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے کی حیثیت سے جرمنی کو واشنگٹن اور بیجنگ میں …… کا بدلہ والی کیفیت پر بہت تشویش لا حق ہے ۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر امریکی اور چینی حکومتوں کی طرف سے دی گئی ٹیرف کی دھمکیوں پر عملدرآمد ہوا تو اس سے عالمی ویلیویشن کے پیچیدہ نظام پر تباہ کرنا اثرات مرتب ہونگے اور ان ممالک پر بھی اس کا اثر ہو گا جو براہ راست اس تجارتی جنگ میں شریک نہیں‘‘ اخبار کدائے میں ’’جرمن کمپنیوں کو یہ خدشہ ہے کہ وہ دونوں معاشی طاقتوں میں کسی تنازع میں گھسیٹ لی جائینگی خصوصیت کیساتھ خطرے سے دو چار ایک شعبہ کاروں کا ہے جو جرمنی معیشت کا شوق ہے مثال کے طور پر بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز بنانے والے ڈیملر کو چین کی جانب سے امریکی کاروں کی درآمد پر امپورٹ ٹیرف سے بہت نقصان کا انداشہ ہے کیونکہ وہ امریکا سے گاڑیاں برآمد کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور چین انکی سرفہرست مارکیٹ ہے ایورکوآئی ایس آئی جو کہ ایک ریسر فرم ہے کے مطابق لگژری کار میں بنانے والے ہر سال امریکا سے چین کو تقریباً115,000گاڑیاں برآمد کرتے ہیں جبکہ فیاٹ کسریسلر، فورڈ اور جنرل موٹرز ملکر 30ہزار سے کم گاڑیاں برآمد کرتے ہیں‘‘ یورپی یونین بھی اس جنگ میں آ گئی سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ کے مطابق چین نے امریکا سے گرم ہوتی تجارتی جنگ پر حمایت کیلئے یورپ سے رابطہ کیا ہے جبکہ یورپی یونین اس تنازع میں الجھنے کے خوف سے دو چار ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے یورپی یونین مشکل میں پڑ گئی ہے بیجنگ کی تجارتی پالیسیوں سے اسے بھی واشنگٹن کی طرح شکایات ہیں تاہم انہیں بھی امریکی صدر کے احکام پر دفاعی اقدامات سے خطرات لا حق ہیں چین سے یورپی یونین سے سفارتی طور پر درخواست کی ہے کہ امریکا کی پروٹیکشن ارم کیخلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہئے۔ چینی اخبار نے مزید کہا’’یورپی یونین اور امریکا ٹرمپ کی طرف سے مارچ میں سٹیل اور ایلومنیم کی درآمد پر ٹیرف لگانے کی دھمکی کے بعد تجارتی جنگ کے دہانے پر ہیں اگر یہ ٹیرف عائد ہوا تو اس سے یورپی مینوفیکچرز کو نقصان ہو گا تاہم ٹرمپ نے یورپ۰ کو آخری لمحات میں استثنیٰ دیدیا اور یورپی یونین کے مذاکرات کاروں کو یکم مئی تک مہلت دی کہ وہ امریکی لیڈر کے مطابق غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی حل پیش کریں ‘‘امریکا اور چین میں تجارتی جنگ بھارتی مارکیٹ کو متاثر کر سکتی ہے:’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے لکھا’’اگر یہ تجارتی جنگ شدید ہوئی تو امریکا چین کی تجارت میں کی ہے ممکنہ طور پر برازیل اور بھارت جیسے ممالک کیلئے تجارتی حوالے سے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں خواہ یہ قلیل مدتی ہی ہوں مثال کے طور پر سویاپین جو کہ اس فہرست میں ایک اہم چیز ہے کویابین پراسیرز ایسوسی ایشن آف انڈیا کے مطابق ایسا ہونے کی صورت میں بھارت کیلئے دیگر مارکیٹوں کے درکھل سکتے ہیں چین کی سالانہ کوہابین امپورٹ تقریباً 100ملین ٹن مقامی طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ باقی سویابین آئل اور برآمدد کیلئے کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے اگر چین کی برآمدات پر ٹیکس عائد ہوا تو اس کی برآمدات پر اثر پڑ سکتا ہے جس سے ایک خلاء پیدا ہو گا اور بھارت کیلئے دیگر ممالک کی ڈیمانڈپوری کرنے کیلئے موقع فراہم ہو گا‘‘ معتبر بھارتی اخبار کے مطابق لیکن لانگ ٹرم میں ایک بھر پور تجارتی جنگ ایک بری خبر ہے اس سے لامحالہ گرانی اور کم تر ترقی کی صورت پیدا ہو جائیگی۔ مہنگائی جو کہ عموماً کرنے جیسے اثاثوں کیلئئے اچھی ہے لیکن یہ کرنسی اور بعض دیگر سیکٹرز پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے بھارت کیلئے اس بڑی پریشانی اس کا بالواسطہ اثرات ہیں جبکہ امریکا میں بھی اس فیصلے کے اثرات مہنگائی کی صورت میں سامنے آئینگے امریکا کی مقامی معیشت میں درآمد کثیر مصنوعات پر خطیر ٹیرف سے صارف قیمتوں میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو گا کیونکہ امپورٹرز خام مال بھی بڑھی ہوئی قیمتوںکو آگے منتقل کرینگے اس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو شرح سود کو تقسیم رکنے اور رئیس کو تیزی سے بڑھانے پر مجبور ہو جائیگا-