امت کی تعلیمی بدحالی اور ہماری ذمہ داری
تحریر:- منظر بلال قاسمی
اسلام وہ مذہب ہے جس میں پہلی وحی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کے ذریعہ حصولِ علم کی تلقین کی گئی ہے،جہاں عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ اوروَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسْمَآءَ کُلَّہَا کےذریعہ علم کی وجہ سے انسانوں کی برتری کا مژدہ سنا یا گیا ہے، جہاں”يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ کے ذریعہ اہلِ علم کے بلند درجات بیان کئے گئے ہیں،جہاں ھلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُون” کے ذریعہ جاہل پر اہل علم کی فوقیت کو بیان کیا گیا ہے،جہاں ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ کے ذریعہ قلم و کتابت کی اہمیت کا اعلان کیا گیا ہےاور جہاں طَلَبُ ا لعِلمِ فَريضَةٌ عَلى كُلِّ مُسلِمٍ و مُسلِمَةٍ ” کے ذریعہ بقدرِ ضرورت حصولِ علم کو اس امت کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے مگر افسوس کہ ماضی میں تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیکر سب کے لئے رول ماڈل بننے والی اس امت نے سرمایہ علم و حکمت سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر میدان میں پسماندگی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ بلاشبہ آج ہم ایسے پر آشوب دور سے گزر رہے ہیں جس میں اسلامی شناخت کو مٹانے کی سازش چل رہی ہے،مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں جاری ہے،مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے متنفر کرنے کے منصوبہ پر عمل در آمد کیا جا رہاہے ،مسلمانوں کی روشن تاریخ کو مسخ کرنے کےلئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جا رہاہےاورعلمائے اسلام سے مسلمانوں کو بدگمان اور بر گشتہ کرنے کی وبا کو منصوبہ بند طریقہ سے ہوا دی جارہی ہے۔
ایسے پر فتن دور میں اگر ہمیں اپنے تشخص ،اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کی حفاظت کر نی ہے تو ماتم کرنے کی بجائے ہمیں عملی طور پر متحرک ہونا پڑیگا۔ یقینا حالات تشویشناک ہیں مگر ہمیں مایوسی کا شکار نہیں ہونا ہے بلکہ ایسے وقت میں ہمیں مسلمانوں او ر بالخصوص نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کی اہمیت، اسلامی اخلاق وکردار کی فضیلت، اسلامی طرزِ زندگی کی روحانیت اور اسلام کے
بنیادی اصول کی معنویت سے روشناس کرانے کی عملی کوشش کرنی چاہئے ۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ ہماری ترقی کا راز اطاعتِ خدا وندی میں مضمر ہے اور اطاعتِ خداوندی سےصحیح معنوں میں آشنا ہونے کے لئے دینی علوم ضروری ہیں۔ کیونکہ;
پئے علم چوں شمع باید گداخت۔ کہ بے علم نتواں خدارا شناخت۔
مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہمیں عصری علوم کے حصول سے پر ہیز کر نا چاہئےکیونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت پہلے اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کر چکے ہیں کہ الحكمة ضالة المؤمن، فحيث وجدها فهو أحق بھا یعنی علم وحکمت تو مومن کا گم گشتہ سرمایہ ہے وہ اسے جہاں مل جائے اسے حاصل کر لے۔ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری نئی نسل جس میدان میں بھی جائے مسلمان بنکر رہے، اسلامی طرز زندگی کو اپنائے،اسلامی اخلاق و کردار کا نمونہ بن کر رہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں فخر محسوس کرے۔ورنہ تو مسلمان کی تعداد چاہے ترقی یافتہ میدان میں بڑھ جائے مگر اس کا مثبت نتیجہ سامنے نہیں آئیگا۔۔ اس کے لئے ہمیں مدارس و مکاتب کے نظام کو مضبوط کرنےکے ساتھ ساتھ اسلامی ماحول کےاسکول، کالجز اور یونیورسٹی کے قیام کی بھی فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر اور ٹیچر کچھ بھی بنے مگر اسلامی اصول زندگی پر عمل پیرا رہے۔شادی بیاہ ، فضول کی تقریبات، جھوٹی شان وشوکت کے مظاہرہ یا مقابلہ آرائی کے لئے ہونے والے پروگراموں سے اجتناب اور ان سب پر خرچ ہونے والے سرمایہ کو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کوئی مسلمان صاحبِ ثروت ہے تو اسے خدا کی خوشنودی کے لئے مسلمانوں کی تعلیم کا انتظام کرنے پر خرچ کرنے میں حصہ لینا چاہئے، اور اگر کوئی مسلمان تعلیمی میدان کو کاروبار کی نظر سے دیکھتا ہے(جیسا کہ ہندوستان میں تعلیمی ادارے ایک کامیاب بزنس کی شکل اختیار کر گئے ہیں) تو بھی اسے آگے بڑھکر تعلیمی ادارہ کے قیام میں حصہ لینا چاہئے، وہ اس ادارے سے پیسہ ضرور کمائیں لیکن اس بات کاخیال رکھیں کہ اس ادارہ میں تعلیم و تربیت کا نظام اور اس کا ماحول اسلامی اصولوں پر رہے۔میرے خیال میں اس صورت میں بھی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کو سدھارنے میں مدد ملے گی۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں کو اسلامی ماحول کا نمونہ بنائیں، اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی اسلامی تعلیم و تربیت اوراخلاق و کردار سے آراستہ کرنے کی فکر کریں۔ انہیں ایسا ماحول دیں کو وہ خود بخود دینی علوم کے حصول کا شوقین بن جائیں۔اپنی مسجدوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا بھی مرکز بنائیں اور کوشش ہو کہ ہمارے گھر کا ہر فرد اس مرکز سے فیضیاب ہو۔دینی تعلیم کے تئیں بیداری کے لئے اپنے گھر ،اپنے محلے اور اپنے علاقے سے شروعات کریں پھر دیکھئے انشا ء اللہ اس کے خاطر خواہ فائدے نظر آئیں گے۔ہم میں کا ہر شخص اگر اس سلسلہ میں اپنے حصہ کی شمع جلاتا جائے تو صورتِ حال یکسر تبدیل ہو تی نظر آئےگی ورنہ تو ماتم کرتے رہیں گے اور حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیے،آمین۔