راولپنڈی(نیوز وی او سی آن لائن )ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو بھارت ہماری کمزوری نہ سمجھے جب کہ سیاست اور الیکشن میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ جب تک بات ہماری ذات پر ہو گی ،تب تک برداشت کریں گے کیونکہ ہم اس نبیﷺکے ماننے والے ہیں جنہوں نے بہت برداشت کیا لیکن جب بات پاکستان پر آئے گی تو بالکل بھی برداشت نہیں کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اسد درانی نے کتاب سے متعلق پاک فوج سے کوئی این او سی نہیں لیا تھا ،اگر انہوں نے این او سی لیا ہوتا توایسے اقدام کی اجازت نہ دی جاتی ، اسد درانی کے خلاف سخت اقدام اس لیے کیا گیا کہ فوج ایسی بات برداشت نہیں کر سکتی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 2018 میں 1 ہزار 77 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں اور 48 پاکستانیوں کو شہید اور 265 کو زخمی کیا، بھارتی فوج جب پاکستانی پر گولی چلاتی ہے تو ہم جواب نہیں دیتے لیکن جب شہری آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم جواب دینے پر مجبور ہوتے ہیں، ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، بھارت کی جانب سے پہلی گولی آنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا تو جواب نہیں دیں گے لیکن دوسری گولی آتی ہے تو بھرپور جواب دیں گے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ منظور پشتین اور محسن داوڑ نے مجھ سے میرے دفتر میں ملاقات کی جس میں انہوں نے نقیب محسود، لاپتہ افراد، فوجی چوکیوں اور فاٹا کے بعض مسائل کو اجاگر کیا، میں نے تمام جی او سیز اور آئی جی ایف سیز سے منظور پشتین اور محسن داوڑ کی بات کرائی اور مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی، محسن داوڑ نے مجھے شکریہ کا میسیج بھی کیا کہ مسئلہ حل ہوگیا لیکن اس کے بعد یہ نام منظور احمد مسعود سے منظور پشتین کیسے ہوگیا، سوشل میڈیا پر مہم چلی، افغانستان میں سوشل میڈیا اکاو¿نٹس بنے اور ایک ٹوپی ملک کے باہر سے تیار ہوکر پاکستان میں برآمد ہونے لگی۔ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی میڈیا پی ٹی ایم کے جلسے کو کیوں براہ راست نشر کررہا ہے، آرمی چیف کی سخت ہدایت تھی کہ پی ٹی ایم کے جلسے کو طاقت سے منتشر نہیں کرنا، لاہور جلسے میں آرمی چیف نے پولیس کو پی ٹی ایم کارکنوں کی پکڑ دھکڑ سے منع کیا، تاحال پی ٹی ایم کے خلاف کوئی کریک ڈاو¿ن نہیں کیا گیا، لیکن اب ہمارے پاس پی ٹی ایم کے خلاف بہت سارے ثبوت ہیں، یہ لوگ استعمال ہورہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ وانا میں امن کمیٹی ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے، وانا میں پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر اور دیگر کارکن فوج مخالف نعرے لگا رہے تھے، امن کمیٹی اور پی ٹی ایم کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا جس میں ہلاکتیں ہوئیں، لیکن سوشل میڈیا پر 8 سالہ بچی کی تصویر لگاکر فوج کے خلاف پروپگینڈا کیا جارہا ہے، آپ ریاست کو طاقت کے استعمال پر مجبور کررہے ہیں، ہمارے خلاف الزام لگانے اور نعرے لگانے سے فوج کو کوئی فرق نہیں پڑتا، جو بھی پاکستان کی خدمت کرتا ہے یہ وردی اس کی ہے، فوج کو گالیاں دینے سے آپ کا قید اونچا ہوتا ہے تو کریں لیکن پاکستان کا قد نیچے ہوتا ہے تو یہ کام نہ کریں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اسد درانی سیاسی وجوہات کی وجہ سے فوج سے قبل از وقت ریٹائر ہوئے، انہوں نے اپنی کتاب میں ریٹائرمنٹ کے بعد کے واقعات لکھے، سروس کے بعد کی باتوں پر آپ اپنا تجربہ اور مشاہدہ لکھ رہے ہیں تو وہ غلط ہے، جلد از جلد انکوائری کانتیجہ سامنے آجائے گا، وردی پہننے سے فرشتہ نہیں بن جاتے، غلطی کرنے پر سزا بھگتنی پڑتی ہے، غلطی پر پاک فوج نے چاہے جرنل ہو یا سپاہی کسی کو معاف نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں کہ حکومت نے اپنی مدت پوری کی، 2018 الیکشن کا سال ہے، تاہم سیاست اور الیکشن میں فوج کو نہیں گھسیٹنا چاہیے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، فوج کو ا?ئینی حدود میں جو کردار سونپا گیا وہ اسے ادا کرے گی۔
میجر جنرل آصف غفور نے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سفارتی و فوجی امداد کی سطح پر بات چیت ہورہی ہے، پاکستان سیکیورٹی فورسز نے دودہائیوں کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے، ہم نے سیکھا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ضرب عضب میں تمام دہشتگرد تنظیموں کا بلاتفریق صفایا کیا ہے، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت کسی دہشت گرد تنظیم کا منظم ڈھانچہ موجود نہیں، لیکن ان کی باقی ماندہ قوت کو افغان مہاجر کیمپوں سے سہولت ملتی ہے، اسی لیے افغان پناہ گزینوں کا پر امن انخلا ضروری ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پاک فوج چاہتی ہے کہ امریکا و غیرملکی افواج افغانستان سے فاتح اور کامیاب ہوکر نکلیں اور ملک کو 1980 کی طرح غیر مستحکم چھوڑ کر نہ چلی جائیں، اس سلسلے میں پاکستان امریکا کی ہر ممکن مدد کرے گا، افغان سرحد پر باڑ لگانے کے بعد سے سرحد پار فائرنگ کے 71 واقعات پیش ا?ئے جس میں 7 فوجی شہید اور 39 زخمی ہوئے، افغانستان میں امن کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی کی نہیں، افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں، افغانستان سے اپنی چوکیوں پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے۔