اقامہ کیوں ضروری؟
کالم :- محمد مشتاق قریشی
خواجہ آصف، جو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے، نے اپنا اقامہ چھپایا الیکشن کے وقت ظاہر نہیں کیا تھا اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے تا حیات نا اہل کردیا۔ اس نا اہلی کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا اس طرح وہ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے نہ وزیر رہے اور نہ ہی قومی اسمبلی کے رکن۔ اسی اقامہ کے باعث وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نا اہل ہو کر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے تمام وفادار ساتھیوں کی سمجھ میں اب تک نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔ ابھی تو
میاں صاحب کی مسلم لیگ کی دو وکٹیں تا حیات گری ہیں اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو مزید وکٹیں گرنے کا احتمال ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال بھی اسی اقامے کی زد میں آسکتے ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے؟ انتخابات آتے آتے کتنے پہلوان سیاست چت ہوتے ہیں؟ اب بھی وقت ہے میاں صاحب وقت کی زبان و پکار کو سمجھیں اگر یونہی وکٹیں گرتی رہیں تو وہ وقت دور نہیں کہ ان کی جماعت کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے۔ میاں صاحب جو کل تک مسند اقتدار پر براجمان تھے، نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ تا حیات ہر قسم کے انتخابات کے لئے بھی نا اہل ہوچکے ہیں۔ ان کے وفادار ساتھی خواجہ آصف بھی ان کے نا اہل ساتھی بن چکے
ہیں آخر پاکستان کی سیاست میں ایسا کب تک چلتا رہے گا کہ سیاسی لیڈر اپنی انا کے قیدی بنے رہیں گے۔ کب تک ملک و قوم کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے۔
اقامہ، اقامہ، اقامہ آخر ہے کیا؟ کیوں خصوصاً پاکستانی سیاست دان تاجر اور دیگر پیشوں سے منسلک افراد اقامہ حاصل کرتے ہیں۔دراصل اس کے پیچھے بڑی کہانی ہے ۔ سیاست دانوں کو تو کم از کم پانچ سال بعد کڑا وقت دیکھنا پڑتا ہے اگر انتخاب میں شکست سے دوچار ہوں گے یا کامیابی حاصل کرنے والی جماعت سے ان کے تعلقات کشیدہ رہے ہوں تو ایسے میں انہیں بیرون ملک ہی پناہ لینی پڑتی ہے ورنہ سرکاری مہمان خانے جانا پڑ سکتا ہے اس لئے اپنے بچائو کے لئے اور کسی ایسے ملک میں جو پاکستان سے زیادہ دور بھی نہ ہو رہائش رکھنے کے لئے انہیں اقامہ کی شدید ضرورت پڑتی ہے یہ تو تصویر کا وہ رخ ہے جو عام طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے، حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے اقامہ یافتہ شخص اس ملک میں جہاں کا اسے اقامہ ملا ہوا ہے وہاں بینک میں اپنا اکائونٹ کھول سکتا ہے کیونکہ جو لوگ بیرون ملک ملازمت کے لئے جاتے ہیں انہیں یہ سہولت میسر ہوتی ہے کہ وہ اپنی آمدنی کو کسی بینک میں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر کہیں منتقل کرنا ہو تو بینک کے ذریعے منتقل کرسکتے ہیں۔ اس سہولت سے ہمارے تمام ایسے سیاست دان اور تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں وطن عزیز میں کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے اپنی دولت جو چاہے جائز طریقوں سے کمائی ہو یا ناجائز طریقوں سے اسے اس ملک، جہاں انہوں نے اقامہ حاصل کر کے بینک اکائونٹ کھولے ہوتے ہیں ،منتقل کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ حوالہ کا استعمال کرتے ہیں اور حوالے والے ان کے مطلوبہ اکائونٹ میں ان کی مطلوبہ رقوم جمع کرا دیتے ہیں دوسرے کچھ لوگ ذاتی طور پر اپنے سامان میں چھپا کر یا متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے بیرون ملک لے جاتے ہیں اور وہاں جو اکائونٹ انہوں نے اقامہ کی بدولت کھولا ہوتا ہے اس میں جمع کر کے واپس وطن عزیز آکر مزید دولت جمع کرنا شروع کردیتے ہیں اب تو کمپیوٹر نے انٹرنیٹ پر آن لائن کی سہولت مہیا کر رکھی ہے آپ کہیں بھی بیٹھ کر اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ سے اپنے کسی غیرملکی اکائونٹ میں رقم منتقل کرسکتے ہیں۔ میاں نواز شریف ان کی فیملی یا خواجہ آصف اور دیگر ایسے ہی سیاسی اکابرین نے جو اقامے حاصل کر رکھے ہیں وہ یونہی شوقیہ نہیں بلکہ بہت ضروری اور اہم ہیں میاں صاحب بار بار جگہ جگہ یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ مجھے اپنے بیٹے کی کمپنی سے معاوضہ نہ لینے کے سبب نا اہل کیا گیا ہے۔ دولت چاہے لوٹی ہوئی ہو یا کسی بھی ذریعے سے کمائی ہوئی ہو اس پر قانوناً ملک کا حق بنتا ہے اس پر قانون کے مطابق ٹیکس ادا کر کے اسے قانونی بنایا جاسکتا ہے چونکہ وہ کمائی غیر قانونی ہوتی ہے اس لئے اسے ظاہر نہیں کیا جاتا اور اقامے کی آڑ میں اسے بیرون ملک چھپا دیا جاتا ہے اگر ایسا کوئی عام آدمی کرے تو وہ چور اور جانے کیا کیا القاب سے نوازا جائے لیکن اہل سیاست ہر حال میں گنگا نہائے رہتے ہیں۔ شاید وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار اقامہ یافتہ لوگوں کی چھان بین ہو رہی ہے ابھی شاید اہل قانون اور عدالتیں اقامہ کے پیچھے چھپے اربوں ڈالر اور کھربوں روپے کو تلاش نہیں کر پائے۔ان تمام رقوم کا کوئی نام و نشان کہیں سے دستیاب ہونا ممکن نہیں کیونکہ سب غیر قانونی طریقوں سے ان کی اقامہ گاہوں میں منتقل ہوتی رہی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ رقوم اقامہ والے اکائونٹس سے کہیں اور سوئٹزر لینڈ، امریکہ یا اور کسی ملک منتقل ہوچکی ہو ںجہاں جہاں جس جس کے مفادات ہوں۔
سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور تجارتی اکابرین جو اربوں، کھربوں پتی ہیں انہیں آخر ایک کفیل کی ملازمت کی کیا ضرورت آن پڑتی ہے اس لئے کہ اقامہ واحد حل ہے کسی بھی ملک میں رہنے یا کام کرنے کا اقامہ دراصل ویزہ ہوتا ہے جس سے اقامہ یافتہ شخص نہ صرف اس ملک میں قیام کرسکتا ہے کیونکہ ان ممالک کے قانون کے مطابق کسی بھی غیر مقامی شخص کو عارضی ویزہ جاری کیا جاتا ہے جو صرف سیر و تفریح کے کام آتا ہے اگر وہاں ملازمت کرنا ہو تو ورک پرمٹ لینا پڑتا ہے اسکے ساتھ ہی اقامہ ملتا ہے جس میں ملازمت دینے والا مقامی شخص اس کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ شخص میرا ملازم ہے مقامی شخص کی ملازمت کی ضمانت پر اقامہ جاری کیا جاتا ہے اسلئے تمام ہمارے رئیسوں، امیروں، کبیروں،ارب پتیوں کو اس ملک میں اکائونٹ کھولنے کیلئے مجبوراً اقامہ لینا ہی پڑتا ہے، کچھ لوگ تو کفیل کو باقاعدہ معاوضہ ادا کرتے ہیں ۔ عدلیہ کو چاہئے کہ ایسے تمام چہروں پر اقامہ کے بڑے نقابوں کو پکڑ کر کھینچ دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے بینک دولت پاکستان اس سلسلے میں ان تمام ممالک سے کوئی ایسا معاہدہ کرے جس سے ان لوگوں کے اکائونٹ کی تفصیلات حاصل کی جاسکیں ورنہ تو یہ سب بس یونہی کارروائی ٹھہرے گی اللہ ہمیں ہمارے وطن عزیز کو ہر بلا اور ہر آفت سے محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی پناہ میں رکھے، آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
بشکریہ روزنامہ جنگ