افغانستان: پراکسی جنگوں کا انتشار
کالم:- ڈاکٹر لال خان
بدھ کے روز کابل کے بازار میں دو پاکستانی سفارت کاروں کو ہراست میں لے لیا گیا۔ نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) نے انہیں تین گھنٹے تک اپنی تحویل میں رکھا۔ اس سے قبل پاکستانی اور افغان حکام کے مابین فلیگ میٹنگ کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئی۔ افغان فورسز کی جانب سے دو سرحدی دیہات پر حملے کے بعد یہ پاکستانی اور افغان فوجی حکام کی چوتھی فلیگ میٹنگ تھی۔ اس حملے میں 13 افراد ہلاک اور 40 زخمی ہو ئے تھے۔افغان فوجی افسران کلے لقمان اور کلے جہانگیر کے افغان حدود میں ہونے کے دعویدار اور پاکستانی فورسز کے ان دیہات سے انخلا پر مصر ہیں۔
گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی ریاست اور افغانستان کی سامراجی کٹھ پتلی حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ حالات میں بہتری اور امن مذکرات اور معاہدوں کے باوجود تناؤ شدید ہے۔ سرحدی جھڑپیں خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔ دونوں ممالک میں مذہبی بنیاد پرست دہشت گردی بظاہر بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔ تقریباً دو صدیوں سے افغانستان میں جاری گریٹ گیم کے اس نئے کھلواڑ میں کچھ عرصے سے پاکستان کے علاوہ روسی، چینی اور ہندوستانی ریاستوں اور ان کے سامراجی عزائم کی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔ امریکی سامراج کی شکست اور ناٹو افواج کے انخلا سے ان قوتوں کو مزید شہ ملی ہے کہ اب وہ اپنی پراکسیوں کے ذریعے کہیں زیادہ کھل کر اس آگ کو مزید بھڑکا سکتے ہیں جس سے اس خطے کے عوام نسل در نسل برباد ہوئے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین حملے کابل اور جلال آباد میں ہوئے ہیں۔افغان حکام کے مطابق خود کش حملہ آوروں نے منگل کے روزجلال آباد میں سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو سٹیشن میں گھس کر کم از کم چھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ گزشتہ ماہ امریکی افواج نے نے ننگرہار صوبے میں داعش کے خلاف جی بی یو 43 بی نام کا دیو ہیکل بم گرایا تھا جسے تمام بموں کی ماں کہا جاتا ہے۔ جلال آباد ننگرہار کا صوبائی دارالحکومت ہے۔
2مئی کو داعش نے کابل میں امریکی سفارتخا نے پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں تین امریکی فوجی زخمی اور آٹھ افغان فوجی ہلاک ہوئے تھے۔داعش کے جہادی امریکی کٹھ پتلی افغان حکومت اور طالبان، دونوں کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ داعش کے میڈیا کے شعبے اعماق نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مارچ میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک ملٹری ہسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بھی انہوں نے ہی قبول کی تھی جس میں چھ گھنٹے کے محاصرے کے دوران کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی سامراج گھبراہٹ کا شکار ہے۔ در حقیقت امریکی شکست خوردہ ہو کر پسپائی پر مجبور ہو گئے تھے لیکن اپنی سامراجی رعونت کے ہاتھوں وہ ملک اور خطے پر کسی حد تک کنٹرول رکھنے پر مجبور بھی ہیں۔امریکی تسلیم کر چکے ہیں کہ گزشتہ سال کے دوران اشرف غنی حکومت کے کنٹرول میں افغانستان کا علاقہ 72 فیصد سے گھٹ کر 57 فیصد رہ گیا ہے۔نئی امریکی حکومت اب طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے نئے پلان پر غور کر رہی ہے۔واشنگٹن میں منصوبہ سازبخوبی جانتے ہیں کہ کابل میں ان کی کٹھ پتلی حکومت کی عملداری بہت محدود ہے اور وہ کرپشن اور سنگین جرائم میں ملوث ہے۔سامراجی جھنجھلا کراب الزام تراشیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔سی آئی اے کے سابقہ پالیسی ساز اور اب واشنگٹن میں بروکنگ انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے بروس ڑیڈل نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ’’ہمسایہ ملک پاکستان کے برتاؤ میں تبدیلی کے لیے ایک نئی ٹھوس کوشش شروع کریں۔ جب تک پاکستان کی ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ طالبان کو اسٹریٹجک اثاثہ سمجھتی رہے گی اور انہیں پناہ گاہیں اور مادی امداد فراہم کرتی رہے گی تب تک طالبان کو مذکرات میں کوئی کشش نہیں … مسٹر اوباما کی پاکستان کو رشوت اور خوشامد کے ذریعے مزید تعاون پر مائل کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔‘‘
ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے تعلق رکنے والی لیزا کرٹس کو قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر نے وائٹ ہاؤس میں مشیر برائے جنوبی اور وسطیٰ ایشیا مقرر کیا ہے ۔ اس نے حال ہی میں ایک رپورٹ لکھی ہے جس میں پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں متضاد رویے کے خاتمے کے لیے کئی اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ جن میں پاکستان کا ’’اہم غیر ناٹو اتحادی‘‘ کی حیثیت کا خاتمہ، فوجی امداد پر پابندیاں، امداد کو دہشت گر د گروپوں کے خلاف کاروائیوں سے جوڑنا اور پاکستانی سرزمین پر طالبان کے خلاف امریکی فوجی کاروائیوں میں اضافہ شامل ہیں۔عجیب بات ہے کہ امریکی حکومت کے ماہرین وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں۔ ابتدا میں امریکی ریاست اور سی آئی اے نے ہی 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے سی آئی اے کے سب سے بڑے خفیہ آپریشن میں پاکستانی ریاست اور ایجنسیوں کو ان رجعتی جہادیوں کومنظم کرنے اور تربیت دینے میں معاونت فراہم کی تھی۔وہ پاکستان اور خطے کی دوسری ریاستوں کے ان اسلامی بنیاد پرست جنگجوؤں کے ساتھ مراسم سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس میں سہولت کار بھی تھے۔ انہوں نے ہی پاکستان کے سماج کو تاراج کرنے والی ضیا الحق کی خوفناک آمریت مسلط کی تھی۔
آج امریکی سامراجی منصوبہ سازوں کی مایوسی عیاں ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ ڈین کوٹس نے حال میں کہا کہ ’’ تقریباً حتمی طو ر کہا جا سکتا ہے امریکی فوجی معاونت میں محدود اضافے کے باوجود 2018ء تک افغانستان میں سکیورٹی اور سیاسی صورتحال مزید خراب ہی ہو گی۔‘‘ امریکی کی طویل ترین جنگ میں 16 سالہ جارحیت اور قبضے کے باوجود موجودہ حالات کو ’تاریخ کا مکافات عمل ‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
امریکی کمزوری سے فائدے اٹھاتے ہوئے روسی اور چینی مختلف طالبان قیادتوں سے مذاکرات کر رہے ہیں جس سے امریکی دوطرفہ مشکل میں پھنس رہے ہیں۔ماسکو اور بیجنگ کے عزائم میں زیادہ فرق نہیں اور ان مذاکرات کے پیچھے ان کے اپنے اپنے مفادات اور اسٹریٹجک منصوبے ہیں۔ ہندوستان کی پالیسی بھی ان جیسی ہی ہے۔ وہ اپنے ملکوں میں مسلم آبادی کے علاقوں میں داعش کے پھیلاؤ کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اسے روکنا بھی چاہتے ہیں۔ ہندوستان کچھ اسلامی بنیاد پرست گروہوں اور افغان حکومت میں کچھ دھڑوں کو پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔اس سے پاکستان کے ریاستی اداروں کے منصوبہ سازوں کا کئی دہائیوں سے جاری ’تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی پر عمل درآمد مزید مستحکم ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی افغان پالیسی درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن وہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ کالے دھن کے پجاری اِن بنیاد پرست گروہوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اب انہیں صرف کرائے پر لیا جا سکتا ہے، مستقل طور پر خریدا نہیں جا سکتا ۔ اس خونریزی میں جنگی سرداروں اور ان دہشت گرد گروہوں کی جانب سے وفاداریاں بدلنا ایک معمول بن چکا ہے۔ وفاداریوں کی اِسی خرید و فروخت، آقاؤں کی تبدیلی، تذویراتی گہرائی کے بیک فائر اور ریاست کے داخلی تضادات نے ہی تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کو جنم دیا تھا۔ افغانستان کی جنگ جلد ہی پاکستان تک پھیل گئی۔ مستقبل میں بھی ایسا پھر سے ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔
افغانستان واحد ریاست تھی جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور1948ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ افغان حکمرانوں نے کبھی بھی انگریز سامراجی افسر ڈیورنڈ کی کھینچی ہوئی لکیر کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ مغربی سامراجوں اور علاقائی ریاستوں کی مداخلت سے افغانستان کی دلدل مزید پیچیدہ اور گہری ہو گئی ہے۔ افغانستان کی بربادی کا حل قومی بنیادوں پر ممکن تھا نہ ہے۔ سامراجی طاقتوں کا پہلا اور آخری مقصد افغانستان کے وسائل اور اس کی جغرافیائی اہمیت کو اپنے مالی مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اس کے ساتھ وہ بیرونی دشمنیوں کو اپنے ممالک کی قومی سالمیت کو لاحق خطرے کو طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مایہ ناز جرنیل کلازوٹز نے کہا تھا کہ ’’جنگ در اصل دوسرے پر تشدذریعوں سے داخلی سیاست کا تسلسل ہوتی ہے۔‘‘
حکمران اشرافیہ ان مصنوعی بیرونی خطرات کو استعمال کرتے ہوئے محنت کشوں کو استحصال کے خلاف لڑنے سے روکتی ہے اور استحصالی نظام کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں کو قومی سلامتی کے نام پر کچلا جاتا ہے۔ لیکن یہ حکمران ایک بھی اندرونی یا بیرونی مسئلہ حل نہیں کرسکتے کیونکہ جس نظام پر ان کی حاکمیت قائم ہے وہ خود بحران کا شکار ہے۔ جیسے طبقاتی سماج میں غریب عوام ہی ذلت، غربت و بیماری کا شکار ہیں ، اسی طرح جنگوں اور دہشت گردی میں بھی زیادہ تر غریب ہی مرتے ہیں۔لہٰذا جنگوں، دہشت گردی اور استحصال سے نجات کے لئے اِس محنت کش طبقے کو ہی سرمایہ دارانہ نظام اور ریاستوں کو اکھاڑنے کا فریضہ سرانجام دینا ہے