انٹرنیشنل

افغانستان: مشترکہ کارروائی میں عمر بن خطاب ہلاک

واشنگٹن 6 دسمبر 2017
(بیورو رپوٹ نیوز وائس آف کینیڈا)
افغان انٹلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) نے منگل کو اس آپریشن کی تفصلات جاری کی ہیں اور کہا ہے کہ عمر بن خطاب، جو عمر منصور کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے
افغانستان کی سیکورٹی فورسز نے امریکی شراکت داروں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے مشترکہ چھاپوں کے دوران طالبان اور دیگر 80 دہشت گردوں سمیت القائدہ کی کئی اعلیٰ قیادت کو ہلاک کیا ہے۔
افغان انٹلی جنس ایجنسی، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی (این ڈی ایس) نے منگل کو اس آپریشن کی تفصلات جاری کی ہیں اور کہا ہے کہ عمر بن خطاب، جو عمر منصور کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے۔
عمر بن خطاب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان اور بحرہند کے خطے کے لئے القائدہ کا دوسرا برا کمانڈر تھا۔ وہ 2001ء کے بعد سے، جب بین الاقوامی دہشت گرد گروپ کو پناہ فراہم کرنے کے الزام میں امریکی قیادت میں کی جانے والی چڑھائی کے ذریعے طالبان کو کابل میں اقتدار سے نکال باہر گیا تھا، ہلاک ہونے والا القائدہ کا سب سے بڑا کمانڈر تھا۔
یہ مشترکہ کارروائی افغان صوبہٴ غزنی، زابل اور پکتیہ میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ کی گئی، جس دوران القائدہ کے 27 اراکین گرفتار اور ان کے پانچ ٹھکانے بھی تباہ کئے گئے۔ افغان ایجنسی نے منگل کو جاری کئے گئے بیان میں عمر خطاب اور ہلاک ہونے والے دیگر اعلیٰ کمانڈروں کی قومیت سمیت آپریشن کی مزید تفصیلات نہیں دیں، جبکہ امریکی افواج نے اس آپریشن میں اپنے کردار کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
طالبان نے ’این ڈی ایس‘ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، اسے بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مسلح اسلامی بغاوت کا تعلق کسی بھی غیر ملکی تنظیم سے نہیں۔ میڈیا کو بھیجے گئے اپنے ایک بیان میں اس گروپ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رواں ہفتے کے دوران تینوں صوبوں میں ایسے کسی بھی امریکہ افغان مشترکہ آپریشن کی بھی تردید کی۔
گزشتہ ہفتے نیٹو کمانڈر جنرل نیکلسن نے افغانستان میں القائدہ اور اس کی ذیلی تنظموں کی موجودگی پر تفیصلی بات کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان میں طالبان اور القائدہ کے درمیان رابطے ہیں اور القائدہ افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہی ہے۔
جنرل نیکلسن کا کہنا تھا کہ گرچہ طالبان عوامی سطح پر القائدہ سے اشتراک کا اعتراف نہیں کرتے، لیکن ان کے درمیان اب بھی تکنکی بنیادوں پر قریبی تعلق موجود ہے۔
القائدہ انھیں خصوصی مہارت فراہم کرتی ہے، خصوصی نوعیت کے ہتھیاروں یا خود ساختہ بم بنانے کی تربیت دیتی ہے۔ یہ القائدہ برصغیر کے جنگجو ہی ہیں جو بہت سے مقامی طالبان کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور جواب میں طالبان انھیں محفوظ پناہ فراہم کرتے ہیں۔
جنرل نکلسن نے مزید بتایا کہ امریکی افواج القائدہ جنگجوؤں کے پیچھے ہے اور وہ جہاں ملتے ہیں ان پر حملہ کرتی ہےخصوصی طور پر افغانستان کے مشرقی حصے میں اور جب انھیں تلاش کرلیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں وہاں رہتے ہیں۔
امریکی افواج نے دو سال پہلے افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں القائدہ کے کیمپ کو تلاش کرکے تباہ کردیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں مسلح افراد مارے گئے تھے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 16 برس پہلے نائین الیون کو امریکی شہروں پر دہشت گرد حملوں کے الزام میں القائدہ کے قائد اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔

اس وقت سے اب تک افغانستان میں امریکی افواج بڑی تعداد میں اس گروپ کے کمانڈر اور جنگجوؤں کو ہلاک کرچکی ہے۔ اسامہ بن لادن کو امریکی اسپیشل فورسز نے 2011ء میں پڑوسی ملک پاکستان میں تلاش کرکے ہلاک کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button