افتخار چوہدری کیخلاف ریفرنس؛ حکومتی وکلا کو خلاف قواعد ادائیگیوں کا انکشاف
اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی میں2007 میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی پیروی کیلیے وکلا کوخلاف قواعد بھاری معاوضے کی ادائیگی کا انکشاف ہوا ہے۔
گزشتہ روز ذیلی کمیٹی کا اجلاس ک کنوینرسردار عاشق گوپانگ کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کے2008-09اور2009-10کے زیر التوا آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔
اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے بتایا کہ2007 میں سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کیخلاف سابق صدرمشرف کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائرصدارتی ریفرنس کی پیروی کیلیے 2 وکلا وسیم سجاد اورخالد رانجھا کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان وکلا کو60لاکھ روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگی کی گئی حالانکہ اس وقت کے وزیراعظم نے وزارت قانون و انصاف کو صرف20لاکھ روپے کی ادائیگی کی اجازت دی تھی۔
کمیٹی نے اس معاملہ پر آڈٹ، وزارت قانون اور ارکان کی رائے کے بعداس معاملے کو منظوری کے لیے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو بھجواتے ہوئے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ آئندہ اس طرح کی خلاف قواعد ادائیگیاں نہ کی جائیں۔
آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ2007 میں ہی صدارتی ریفرنس کے دوران ملک قیوم نے بطور وکیل 40 لاکھ روپے فیس وصول کی، بعد میں وہ اٹارنی جنرل بن گئے۔ اس طرح بحیثیت اٹارنی جنرل اپنی ہی فیس میں انھوں نے20لاکھ روپے کا غیرقانونی اضافہ کر لیا ۔
سیکریٹری قانون و انصاف کرامت حسین نیازی نے کہا کہ ایک دفعہ وکیل فیس وصول کرلے تو پھر کبھی واپس نہیں کرتا۔اجلاس کے دوران ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزہ کے دوران شیخ روحیل اصغر کے استفسار پر سیکریٹری قانون نے کمیٹی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 15لاکھ ماہانہ جبکہ ہائیکورٹ کے جج کی تنخواہ10لاکھ روپے ماہانہ ہے۔
آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پی اے سی گز شتہ 5سا ل کے دوران 300ارب رو پے ریکور کروا نے میں کامیاب ہوئی۔ کمیٹی نے کنٹرولرجنرل اکاؤنٹس کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے نوٹس بھجوا دیا۔