کراچی

اعلیٰ پولیس افسران راؤ انوار کو گرفتار اور مقدس حیدر کو بچانے کیلیے سرگرم

کراچی: سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران دہرا معیار اپناتے ہوئے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤانوار کو گرفتار اور انتظار قتل کیس میں سابق ایس ایس پی مقدس حیدرکوبچانے میں سرگرم ہیں۔
کراچی پولیس کے چند افسران اور قریبی دوست کے مطابق سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو پہلے سے زیادہ جان کا خطرہ لاحق ہوگیاہے۔
13جنوری کی شام درخشاں تھانے کی حدود میں اینٹی کارلفٹنگ سیل پولیس اہلکاروں نے نوجوان شہری انتظارپرفائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگئے جبکہ اسی روز شام میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی پولیس پارٹی نے مبینہ مقابلے میں نقیب اللہ محسود سمیت 4مبینہ دہشت گردوں کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا، دونوں واقعات میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی پولیس کمیٹیوں میں شامل اعلیٰ افسران کی جانب سے دونوں مذکورہ واقعات کی تحقیقات کے طریقہ کار میں دہرا کردارسامنے آیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس پی افسران اپنے پی ایس پی افسر ایس ایس پی مقدس حیدرکومبینہ طور پر بچانے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو گرفتارکرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
تفتیشی افسران نے بتایاکہ اس وقت سندھ پولیس میں 2 دھڑے موجود نہیں تھے لیکن اب پی ایس پیز اور رینکرز افسران نے اپنے اپنے دھڑے بنالیے ہیں جس کی وجہ سے نقیب اور انتظار کیس 13جنوری کے بعد سے اب تک کسی انجام تک نہیں پہنچ پائے دونوں واقعات میں قاتل ایس ایس پیز کو ٹھہرایا جارہا ہے لیکن آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی ممبران کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ میرٹ پر کوئی فیصلہ کرسکیں۔
کمیٹی ممبران مذکورہ واقعات سے متعلق روز کی بنیاد پر اپنے اعلیٰ افسران کو رپورٹ ارسال کرتے ہیں اور اعلیٰ افسران ان کی رپورٹیں دیکھنے کے بعد اپنی حکمت عملی کے تحت کمیٹی ممبران کو حکم جاری کردیتے ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق اعلیٰ افسران کے چند احکام تو قانون کے مطابق درست ہیں لیکن زیادہ تر احکام ان کیسوں سے متعلق جوڑ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے دونوں نوجوانوں کے قتل میں ملوث اہم کردار بے نقاب نہیں ہوسکے، تفتیشی افسران کہتے ہیں کہ ہمارے تجربے کی بنیاداورکیسوں کے حالات و واقعات سے دونوں ایس ایس پیز ان کیسوں سے بچ نکلیں گے اور انکے ماتحت افسران و اہلکار پھنس سکتے ہیں۔
تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ ایک عام آدمی اس جدید دور میں دو سے تین موبائل فون استعمال کرتا ہے تو مذکورہ دونوں ا یس ایس پی کیوں نہیں رکھتے ہونگے ؟کمیٹی ممبران نے تکنیکی طور ان ایس ایس پیز کے زیر استعمال جو موبائل فون کے ریکارڈ اور لوکیشن چیک کی ہے ان میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ ایس ایس پیز کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد مل سکے۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی ممبران نے ان ایس ایس پیز کے اس موبائل فون نمبر کی معلومات حاصل کی جو اعلی افسران ، میڈیا اور انکے ماتحت افسران کے پاس ہوتے ہے لیکن ان کے دوسرے موبائل فونز نمبرز جو صرف گھر والوں اور خاص لوگوں کے پاس ہوتے ہے وہ کمیٹی تاحال حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button