اسلام کی معاشی تعلیمات
aسلام محض پُوچا پاٹھ کا مذہب نہیں بل کہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ زندگی کے ہر باب سے متعلق اس کی ہدایات موجود ہیں۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اسلامی تعلیمات سے خالی ہو۔ چناں چہ اسلام نے انسان کی زندگی کے معاشی پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا بل کہ اس میدان میں کافی اور قابل عمل تعلیمات بیان کی ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی عملی زندگی سے اقتصادیات کا مکمل نظام پیش کیا ہے اور ریاست مدینہ میں اسی نظام کو عملی شکل بھی دی اور سیرت طیبہ کی روشنی میں پھر خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے عہد مبارک میں لوگ اس خوش حال اور آسودہ حال اسلامی معیشت سے فیض یاب ہوتے رہے۔
اسلامی معاشیات کا بنیادی ڈھانچہ مغربی معاشیات سے یک سر مختلف ہے۔ مغربی معیشت کی طرح اسلام دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو جائز نہیں سمجھتا ہے۔ اسی طرح مغربی معاشی تعلیمات میں اخلاقیات کو کوئی کردار نہیں بل کہ وہاں معیشت میں خودغرضی جائز ہے، جب کہ اسلام نے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور اس ضمن میں اخلاقی پابندیاں لگائی ہیں۔
ذاتی منافع کی خاطر ایک طرف دولت کمانے کی ترغیب دی ہے تو دوسری طرف یہ تعلیم بھی دی ہے کہ سب کچھ یہ دنیا نہیں بل کہ یہ مسافر خانہ ہے اس کے بعد بھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ انسان کی ساری توانائیاں اور ساری جدوجہد کا مرکز یہ دنیا ہوجائے یہ بات اسلام کے بنیادی مزاج کے خلاف ہے۔ اسلام معاشی زندگی میں قناعت کی تعلیم دیتا ہے۔
آج ہم نے قناعت کے پہلو کو نظرانداز کیا ہے، سو روپے کمانے والا ہزار کمانے کی کوشش کرتا ہے جب کہ ہزار والا لاکھ کمانے کی فکر میں لگا ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مال دولت میں برکت اور زندگی سے چین و سکون ختم ہوگیا۔ حالاں کہ ہر چیز میں فراوانی ہے تاہم پھر بھی ہر کس و ناکس مالی پریشانیوں کا رونا رو رہا ہے نہ سو کمانے والا خوش ہے، ہزار والا اور نہ ہی لاکھ والا۔ اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسا ختم ہونے کا نتیجہ یہی ہے کہ آج معاش کی فکر نے انسان کو بھیڑیا بنایا ہے۔ ذرایع آمدن میں جائز و ناجائز کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ رشوت، کرپشن، خیانت اور سود کی شرح روز بہ روز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
یہ خرابیاں تب ختم ہوں گی جب ہمارا معاشی نظام اسلامی تعلیمات کے موافق ہوجائے۔ یہ سماجی برائیوں، بدعنوانیوں اور معاشی ناہمواری کی بنیادی وجہ معاشی ناانصافی ہے۔ معاشی ناانصافی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے شریعت نے ان تمام راستوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے جن کے ذریعے دولت کا بہاؤ کسی فرد واحد یا معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کی طرف مڑجائے۔
دوسری طرف زکوۃ، صدقات، کفارات، وراثت جیسے واجبی اور نفلی احکام بھی دیے ہیں جن کے ذریعے دولت مستحقین اور ضرورت مندوں تک پہنچتی ہے۔ نبی ﷺ نے قبیلہ حضر کے ننگے پاؤں ننگے جسم اور افلاس زدہ لوگوں کو دیکھا تو پریشان ہوگئے اور اس وقت تک چین نہ آیا جب تک ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا اہتمام نہ ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اس امر کو ایمان کے منافی قراردیا ہے کہ ایک آدمی خود سیر ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔
نظام کفالت اور بیت المال کو رائج کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ملکی وسائل اور پیداوار میں مفلوک الحال اور حاجت مند طبقے کو بھی شریک کیا جائے۔ لہذا قرآن مجید میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ مال داروں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرکے ان کو بُری صفات سے پاک کردو اور ان کو اچھی صفات میں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔‘‘
محسن انسانیت ﷺ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اللہ نے مسلمانوں پر صدقہ فرض کیا ہے۔ جوا ن کے مال داروں سے لیا جائے گا اور کے حاجت مندوں کو دیا جائے گا۔
دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے ضروری ہے کہ ہم ملکی نظام معیشت سے سود کا فی الفور خاتمہ کردیں۔ آپ ﷺ نے سود کو بدترین عنصر قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم میں اسے اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف کھلی جنگ قراردیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ’’ سود کے ستّر درجے ہیں اور سب سے کم گناہ کا درجہ ایسا ہے جیسے ماں سے زنا کیا جائے۔‘‘ اسی سود ی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم کے لاکھوں افراد کے جمع شدہ سرمایے پر جو نفع حاصل ہوتا ہے۔
وہ اس سودی نظام کی وجہ سے سب کا سب چند سرمایہ داروں کی جیب میں چلا جاتا ہے جو بینک سے لاکھوں روپے قرض لے کر بڑی بڑی تجارت کرتے ہیں اور عوام کو نہایت معمولی رقم سود کی شکل میں ملتی ہے اور پھر یہی سرمایہ دار منڈی کے بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں اور جب چاہتے ہیں مصنوعی قلت پیدا کردیتے ہیں۔ ہمارے بیشتر اقتصادی اور سماجی مسائل کا سبب سود ہے، یہی معاشرے میں بہت سی خرابیوں کی بنیاد ہے۔ آج جو ہمارا ملک بیرونی قرضہ جات میں جکڑا ہوا ہے، یہ سودی نظام کی نحوست ہے، اس نظام نے ہی تو پاکستان کی معیشت کو تہس نہس کر ڈالا ہے۔
ایک طرف قرآنی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو پس پشت ڈال دیا اور اللہ کے خلاف کھلم کھلا جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف پھر معاشرتی زبوں حالی، رشوت، سمگلنگ اور رزق میں بے برکتی کی شکایت بھی کررہے ہیں۔ آج ہم اپنے معاشرے کا اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر جائزہ لیں تو یقینا ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم اس وقت واقعی وعید اور عذاب کی زد میں ہیں جو سودی معیشت کا بالواسطہ یا بلاواسطہ نتیجہ ہے۔
اسلام نے اپنی معاشی تعلیمات میں بازاروں اور منڈیوں میں چند افراد کی اجارہ داری کاسد باب بھی کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے غیر قانونی معاشی اجارہ داری حاصل کرنے والے قوموں کے خلاف عملی اقدامات فرمائے۔ آپ ﷺ نے بازاروں کی خود نگرانی فرمائی اور احتکار وغیرہ سے منع فرمایا ہے۔
اسلام کی معاشی تعلیمات میں کفالہ عامہ، عطیات اور زکوٰۃ کا نظام انتہائی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ ﷺ نے مدنی ریاست میں انہی کو قائم فرمایا۔ معیشت میں سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دی ہے۔ اسراف اور خیانت سے منع فرمایا ہے۔ مدنی ریاست میں آپؐ نے غربت کو اسلام کے معاشی نظام کے ذریعے ختم کیا۔ زکوٰۃ کو بہ طور اجتماعی سوشل سیکورٹی سسٹم رائج کیا۔ ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی، سود، اسراف سے منع فرمایا۔ مضاربہ، مشارکہ، اجارہ، مرابحہ، قرض حسنہ اور بیت المال کے قیام سے سود کا متبادل نظام رائج فرمایا۔
اقتصادی میدان میں یہ بھاگ دوڑ تب ختم ہوگی جب حکومت کا اقتصادی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ہوجائے، بیت المال اور کفالہ سسٹم کو رائج کیا جائے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں اگر کوئی شادی کے اخراجات خود برادشت نہیں کرسکتا تھا تو آپ ﷺ خود فرمایا کرتے تھے کہ اس کی شادی ریاست کرائے گی اور اس کا قرض بیت المال ادا کرے گا۔ اللہ کی ذات پر بھروسے کے ذریعے بھی معاش کی فکر کو شکست دی جاسکتی ہے۔