اسلامی فوج کے سربراہ بارے اہم خبر, قرعہ کس کے نام؟, دیکھئے خبر
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) دفاعی تجزیہ کار جنرل(ر) امجد شعیب نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک کےلئے کام کرتی ہیں۔ ملکی سلامتی ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ یہ ادارے مکمل تحقیقات کے بعد کارروائی کرتے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف عمرے پر سعودیہ گئے پانچ روز قبل وہ عمرہ ادا کر کے واپس آ چکے ہیں۔ اتحادی فورس جو بنائی جا رہی ہے کا یمن تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا مقصد کسی اسلامی ملک کے ساتھ جنگ ہو۔ سعودی عرب سمیت کئی مسلمان ممالک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے یہ فورس اس کے انسداد کےلئے بنائی جا رہی ہے۔ تاکہ اس حوالے سے امریکہ یا کسی اور ملک پر انحصار نہ کیا جائے۔ سعودی وزیر دفاع جب پاکستان آئے تھے تو وزیراعظم سے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ایسی اتحادی فورس بنائی جائے جس کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہوں۔ وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔ وزیراعظم نے راحیل شریف سے بات کی۔ جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے یہ بات بتائی ان کے مطابق اصولی طور پر وزیراعظم نے تجویز قبول کر لی تھی۔ اتفاق یہ ہوا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کو درخواست کرے گی جس میں سب کچھ تفصیل سے بتایا جائے گا۔ اس اتحادی فورس کا مقصد کیا ہوگا کونسے ممالک اس میں شامل ہونگے۔ کمانڈر بنائے جانے والوں کا عرصہ کتنا ہوگا۔ پاکستان کا کمانڈر اگر اپنا وقت پورا کر کے ہٹ جاتا ہے تو کون کمانڈر ہوگا۔ یہ سب کچھ ا بھی طے ہونا تھا اور تجویز کی شکل میں آنا تھا ابھی تک نہیں ہوا۔ ممکن ہے کہ پاکستان کو دو تین ماہ تک درخواست موصول ہو۔ جنرل (ر) راحیل شریف کو باضابطہ طور پر کوئی آفر نہیں کی گئی جب حکومت کو باضابطہ تجویز موصول ہو گئی تو اس پر غالباً پارلیمنٹ میں بھی بحث ہوگی کیونکہ پہلے تو پاکستان نے اس اتحاد کا حصہ بننا ہے اس کے بغیر تو جنرل راحیل کے وہاں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سارا عمل تو تجویز موصول ہونے پر ہی شروع ہوگا ابھی تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ خطے میں بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں کبھی تصور نہ تھا کہ بھارت اور روس میں بھی دوری ہو سکتی ہے۔ روس طالبان کو سپورٹ کرے گا۔ دنیا امریکہ کے ہتھکنڈوں سے تنگ آ چکی ہے۔ نیٹو کا رکن ملک ترکی کا روس کے ساتھ جا بیٹھنا کوئی سوچ سکتا تھا۔ فوجی عدالتوں کو دراصل کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ فوج نے تو ان کی ڈیمانڈ نہیں کی تھی۔ کون سے کیس بھجوانے ہیں اس کا فیصلہ وزارت داخلہ کو کرنا تھا اب وہ کیس بھیجیں گے تو فیصلے ہونگے۔ اس طرح کی فوجی عدالتوں کا نہ بنایا جانا ہی بہتر تھا۔ فوجی عدالتوں میں اپیلٹ کورٹ فوج کے اپنے ہوتے ہیں لیکن یہاں سزا کے بعد اپیل سول کورٹ میں کرنے کی اجازت ہوگی تو پھر کیا فائدہ ہوا۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا کہ بہت ہی عجیب صورتحال ہے کیونکہ وزیردفاع خواجہ آصف نے اس خبر کی تصدیق کی تھی اور کہا کہ کافی عرصہ سے بات چل رہی تھی۔ راحیل شریف کی صلاحیتوں اور قوم کےلئے خدمات قابل تحسین ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ تباہی اس وقت آئی جب ہم غیروں کی جنگ میں کودے۔ اتحادی فورس میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں ہیں۔ پاکستان تو ابھی تک غیروں کی جنگ میں کودنے کے نتائج بھگت رہا ہے بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتا کہ ایک اور جنگ میں کود جائے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر مکمل بحث ہونی چاہیے۔ دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف سعودی عرب نوکری مانگنے نہیں گئے تھے، سارا مسئلہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا پیدا کردہ ہے، اس بارے میں خواجہ آصف ے وضاحتی بیان جاری کریں کہ آیا انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا، راحیل شریف نے پہلے ہی یہ بات کلیئر کردی تھی کہ یہ اچھی بات ہے مگر ایسا ہوتا ہے تو وہ تین شرائط پر کام کریں گے۔سابق فوجی افسر کا دعویٰ ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف نے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کیلئے سعودی عرب کے سامنے 3 شرائط رکھی تھیں، پہلی شرط، ایران کو فوجی اتحاد میں شامل کیا جائے، چاہے وہ مبصر کی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہو؟۔ جنرل (ر) راحیل شریف کی دوسری شرط یہ تھی کہ وہ کسی کی کمان میں کام نہیں کریں گے، ایسا نہ ہو کہ اصل سربراہی کسی سعودی کمانڈر کے پاس ہو اور انہیں اس کے نیچے کام کرنا پڑے۔سابق آرمی چیف کی تیسری شرط یہ تھی کہ انہیں مسلم ممالک میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے صلح کار کے طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔دوسری جانب جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں حکومت کر رہی ہے، حکومت ایسی باتوں سے عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے، ابھی اسلامی ممالک کی فوج بنی نہیں، یہ پروپگینڈا بہت غلط ہے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شرییف کو آفر ضرور کی گئی لیکن ابھی انہوں نے کوئی معاہدہ یا جاب سائن نہیں کی۔ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا سے پوچھا کہ کیا آپ نے یو اے ای کے کسی ہسپتال میں کوئی ملازمت کی ہے تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے کوئی ایسی ملازمت نہیں کی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے کبھی کسی بیرون ملک سے کبھی کسی جاب، گفٹ کی آفر نہیں ہوئی اس لئے کہ میں ایک معزز پاکستانی ہوں اور برائے فروخت نہیں ہوں کوئی مجھے کیوں اس طرح کی آفر دے۔ حکمرانوں کے بدلتے بیانات اور رویہ مایوس کن ہے۔ معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف کو اگر کوئی ملک عہدہ دینا چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت اور متعلقہ وزارتوں کو آگاہی دیں۔ خواجہ آصف نے ٹی وی چینل پر جو بیان دیا وہ شاید غلطی سے سچ بول گئے تھے کہ اس میں حکومت کی مشاورت شامل ہے۔ سیاستدانوں کا بیان دے کر مکر جانا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔