احتساب کی تلوار
کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ
عظیم سائنسدان آئیزک نیوٹن نے ہمیں ایک نئے سائنسی اصول سے متعارف کروایا تھا جس کی رو سے کسی بال کو جتنی شدت سے دیوار پر مارا جائے وہ اتنی ہی شدت سے واپس آتا ہے۔یعنی جس چیز کو جتنی طاقت سے دبایا جاتا ہے وہ اتنے ہی زور سے ابھرنے کی کوشش کرتی ہے۔اس تھیوری کو عمل اور ردِ عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ عملی زندگی میں کسی فرد، گروہ یا جماعت کو دیوار کے ساتھ لگانے کا انجام بغاوت کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اس میں مختلف افراد گروہ اور جماعتیں اتنی ہی شدت سے ری ایکٹ کرتی ہیں جتنی شدت سے انھیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق اس طرح کے جانبدارانہ رویوں اور ان کے ردِ عمل سے بھرے پڑے ہیں۔مسلمانوں کے ہاں اس طرح کی سوچ زیادہ واضح کارفرما نظر آتی ہے کیونکہ ان کے ہاں ملوکانہ نظام میں جس طرح کے وسیع اختیارات ظلِ الہی کو حاصل ہوتے تھے اس کے مطابق وہ اپنے مخالفین کو جینے کا حق دینے کے لئے کبھی تیار نہی ہوتے تھے جس سے انھیں خانہ جنگی اور بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اپنے مخالفین کے خون سے کس طرح ان کی شمشیروں کی پیاس بجھی کوئی سر بستہ راز نہیں ہے؟ آج بھی طاقتور حلقے اپنے مخالفین کو کچل دینے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ان کے ہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اب بھی پوری توانائی کے ساتھ رو بعمل ہے۔کرپشن،احتساب اور ملکی سلامتی کے نام پر مخالفین کو تختہِ دار تک کھینچا جاتا ہے۔ سچ تویہ ہے جس کسی نے بھی مہا بھلی کی طاقت کے سامنے خود کو سرنگوں کر نے سے انکار کیا اس کا انجام بڑا عبرتناک ہوا۔ دنیا میں ایک طرف تو سفید ہاتھی کی طاقت مسلمہ ہے جبکہ دوسری طرف ملکی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت مسلمہ ہے۔دونوں طاقتیں باہم یکجا بھی ہیں اور اندرونِ خانہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں۔جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار اس کی زندہ مثالیں ہیں جب سفید ہاتھی نے منتخب حکومتوں کے خلاف ان کا پھر پور ساتھ دیا۔ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ پوری دنیا جمہوریت کی جانب کشاں کشاں گامزن ہے جبکہ اسلامی دنیا اب بھی جبر،دباؤ اور سکہ شاہی کے بندھنوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ان کے ہاں اب بھی صدیوں پرانی سوچ کا راج ہے۔ اقتدار کے سامنے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ بقائے اقتدار کی خاطر خون بہانا بالکل جائز ہے۔اسلامی دنیا میں اقتدار کی خاطر باہمی جنگیں اور سازشوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ووٹ کی پرچی اقتدار کا فیصلہ کرتی ہے لیکن منتخب قائدین کو کبھی آزادانہ فیصلوں کی آزادی نصیب نہیں ہو پاتی۔وہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ان کا اقتدار محفوظ تصور ہو تا ہے لیکن جہاں پر انھوں نے اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی کوشش کی وہ پلک جھپکنے میں نا اہل اور کرپٹ بن جاتے ہیں۔عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا باہمی گٹھ جوڑھ انھیں یوں زمین بوس کرتا ہے کہ خدا کی پناہ۔در اصل ہماری اسٹیبلشمنٹ منتخب قائدین کو شک و شبہ کہ نظر سے دیکھتی ہے اور انھیں مکمل اختیارات دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتی۔ اس کی کئی تاریخی وجوہات ہو سکتی ہیں جھنیں یہاں بیان کرنا میرا موضوع نہیں ہے لیکن سچ یہی ہے کہ منتخب قائدین کی حب الوطنی پر شکوک و شبہات کے گہرے بادل رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت پر بھارتی وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو سکھوں کی فہرستیں دینے کا الزام لگا کر ان کی پہلی حکومت کو ختم کیا گیا تھا لیکن الزام لگانے والوں نے مرنے سے قبل خود اعتراف کیا تھا کہ فہرستیں دینے والا الزام جھوٹا تھا۔لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔در اصل اسٹیبلشمنٹ قومی قیادت کوقومی سلامتی کے جذبوں سے عاری تصور کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ منتخب وزیرِ اعظم کو وقت سے پہلے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔تھوڑا بہت شور مچتا ہے لیکن رنگ کے باہر بیٹھے ہوئے اقتدار کے گدھ اسٹیبلشمنٹ کی حمائت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور یوں جمہوری روح کا بے دردی سے خون کر دیا جاتا ہے۔ پھر الزامات در الزامات کا اایک لا متناہی سلسلہ شرع ہو جاتا ہے جس میں حق اور سچ کی پہچان مٹ جاتی ہے اور یوں جمہوریت ہار جاتی ہے اور ڈھنڈورچی جیت جاتے ہیں۔،۔
پاکستان پر پچھلے ستر سالوں میں بے شمار خاندانوں نے حکومت کی لیکن ان میں سے احتساب صرف ان خاندانوں کا ہواجن کے احتساب کا قبلہ اسٹیبلشمنٹ نے متعین کیا۔جھنیں اسٹیبلشمنٹ نے دبوچا احتساب صرف انہی کا ہوا۔پاناما میں چار سو سے زیادہ افراد کے نام تھے لیکن ان میں سے کسی کے خلاف سوموٹو ایکشن نہیں لیاگیا۔گردن صرف میاں محمد نواز شریف کی نا پی گئی اور وہ بھی اقامہ کے الزام پر۔حالانکہ فیصلہ کے وقت پانامہ کو ایک طرف رکھ دیا گیا تھاتا چہیتے محفوظ و مامون رہیں۔ در اصل جو منظورِ نظر ہوتے ہیں انھیں ہمیشہ محفوظ راستہ دیا جا تا ہے۔پی پی پی تو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کا آسان ہدف رہی ہے اور اسے سدا دیوار کے ساتھ لگا یا گیا ہے۔آصف علی زرداری ساڑھے گیارہ سال جیل میں رہے لیکن بعد میں تمام مقدمات سے بری ہو گئے۔ لیکن ان کے جیل میں گزارے گے ان گیارہ سالوں کا حساب کون دیگا؟ کیا عدلیہ اس حساب کیلئے تیار ہے؟ایک نو بیاہتا جواں سال جوڑے کے ساتھ جو جذباتی ظلم روا رکھا گیا تھا اس کی تلافی کون کریگا؟کیا کسی نے اعتراف کیا کہ ان سے ظلم سرزد ہو گیا تھا جس پر وہ شرمندہ ہیں؟ کون تسلیم کریگا کہ اس نے دباؤ میں فیصلے کئے تھے؟کیا کوئی اس بات کا دعوی کرسکتا ہے کہ فیصلے کے وقت اس کے سر پر تلوار نہیں لٹکتی تھی؟کیا کوئی انصاف کے ترازو کی قسم کھا کر کہے گا اس نے ہر فیصلہ آئین و قانون کی رو سے کیا تھا؟ کبھی کبھی تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ فرشتوں کی اس بستی میں مسلم لیگ (ن) ہی ایک ایسی جماعت ہے کہ اگر اس کا تایا پانچا کر دیا جائے تو پورامعاشرہ ٹھیک ہو جائیگا لہذا حکومتی وزرا کو د ل کھول کر عدالتوں میں بلا یا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ جس طرح کا رویہ روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔لیکن رک جائیے کہ اس سے قبل ملک پر مسلم لیگ (ق) اور پی پی پی کی حکومتیں تھی کیا اس دور میں پاکستان میں شرافت،امانت،دیانت اور صداقت کا دور دورہ تھا؟کیا اس دور میں کرپشن نہیں تھی؟ کیا اس دور میں بد دیانتی نہیں تھی؟ کیا اس دور میں ملکی خزانہ نہیں لوٹاگیا تھا؟جنرل پرویز مشرف نے تو ڈالروں کی خاطر وطن کی بیٹیوں کا سودا کر دیا تھا اور اس بات کا اعتراف اس نے اپنی کتاب میں خود کیا ہے لیکن اس کے اس اقدام پر کیا کوئی کاروائی ہوئی؟جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں چوہدری برادران سیاہ و سفید کے مالک تھے۔امریکہ کے منظورِ نظر شوکت عزیز وزارتِ عظمی سے سرفراز کئے گئے تھے۔وہ جس دروازے سے داخل ہوئے تھے اقتدار سے محرومی کے بعد اسی دروازے سے صاف نکل بھی گئے تھے اور پلٹ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی تھی۔جب وہ وزیرِ اعظم پاکستا ن تھے تو ان کے خلاف کرپشن کی کہانیوں کا لا متناہی سلسلہ تھا لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے الگ ہوئے کسی عدالت نے ان کے خلاف کوئی سو موٹو نہیں لیا کیونکہ وہ ایک جرنیل کے ساتھی تھے اور ان کی گرفتاری سے جرنیل کے بے شمار خفیہ رازوں سے پردہ اٹھ سکتا تھا لہذا انھیں ملک سے فرار کروا دیا گیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پران کے کارناموں کو طشت از بام نہ کیا جا سکا کیونکہ اس کی اجازت نہیں تھی۔عوام کو بخوبی یاد ہو گا کہ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی کی کرپشن کی کہانیوں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی لیکن پچھلے پانچ سالوں میں اسفند یار ولی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن کا ایک بھی مقدمہ درج نہیں ہوابلکہ انھیں احتساب سے بالا تر رکھا گیا۔ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں انتخاب ۳۱۰۲ الزامی سیاست کے زور پر ہی جیتا تھالیکن بعد میں احتسابی قانون کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔جس جماعت کے اپنے منتخب ارکانِ اسمبلی بک جائیں اس جماعت سے احتساب کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟احتساب کی تلوار سب کیلئے برابر ہونی چائیے اورد اس میں پسندو ناپسند کا گزر نہیں ہونا چائیے کیونکہ پسندو نا پسند سے احتسابی نظام مشکوک اور جانبدار ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں آج کل یہی ہو رہا ہے۔،۔