آقا جی حکم کرو، چوّ لاں نہ مارو
سجنو تے مترو میاں کے بعد خواجہ بھی گئے۔ ن لیگئے گاتے پھر رہے ہیں ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ۔ گلیاں سنجیاں ہوتی جا رہی ہیں اور مزید سنجیاں ہونگی۔ اب اس میں مرزا یار پھرے گا اور بار بار پھرے گا۔
عمران خان کے راستے کے تمام کانٹے چن دئیے گئے، اگر وہ اس بار بھی وزیراعظم نہ بنے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ مرزا یار تقدیر کا لنگڑا تھا، اس لئے پوری طرح گلیوں میں نہ پھر سکا۔ پاکستان میں الیکشن جیتنے والے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی ہوا بن جائے، ہوا بن گئی تو پھر پوری قوم لائی لگ ہے، خود ٹر پڑتی ہے۔
جس نے لایا گلی اوہدے نال ٹر چلی۔ بظاہر خان صاحب کی ہوا بنتی جا رہی ہے۔ یوں سمجھ لیں چپس کے پیکٹوں کے بعد سب سے مہنگی ہوا الیکشن میں چلتی ہے۔یہ سمجھ لیں اس وقت ہم میں ایک برادرم فواد چودھری پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ ہماری رگ رگ میں خان صاحب کی محبت پھوٹ پڑی ہے۔ اللہ انہیں نظر بد سے بچائے اور کھیئروں کی پیراشوٹر پلاننگ سے۔
نجانے کیوں جب معروف مرد حر آصف زرداری مسکراتے ہیں تو ان کی مسکراہٹ میں ہمیں کھیئروں کے قہقہے بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ سنتا سنگھ ڈاکٹر کے پاس گیا، کہنے لگا بچے نے تین دن پہلے چابی نگل لی تھی۔ ڈاکٹر بولا تو تین دن پہلے کیوں نہیں آئے۔سنتا ڈپلیکیٹ سی او آج گم ہوگئی اے (ڈپلیکیٹ چابی تھی لیکن وہ بھی آج گم ہوگئی ہے) ہم بطور قوم سنتا سنگھ سے پیچھے نہیں۔ اصل گم بھی ہو جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں پریشانی تب ہوتی ہے جب ڈپلیکیٹ بھی غائب ہو جائے۔
کچھ عرصہ پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کے تمام اداروں، خزانوں اور وسائل کی چابی رکھنے والے نواز شریف اتنی جلدی بہادر شاہ ظفر بن جائیں گے۔ وہ جانتے ہیں، انہیں اڈیالہ جیل کی شکل میں رنگون بھیجا جائے گا۔ان کے اجتماعات میں چاہے لاکھ نعرے لگیں، قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں اپنے ہی وزیراعظم اور اپنے سگے بھائی وزیراعلیٰ شہباز شریف سے پوچھنا پڑ گیا کہ کہاں ہے ان کی رٹ؟ اور کہاں ہے ان کا اقتدار؟ سنتا کو بوتل ملی، کھولی تو جن نکل آیا۔ جن حسب روایت بولا کیا حکم ہے میرے آقا۔
سنتا بولا مجھے ڈی ایچ اے میں ایک بنگلہ بنا دو۔ جن بولا سنتا سنگھ جی حکم دیں چوّ لیں نہ ماریں، میں خود بوتل میں رہتا ہوں، تجھے کہاں سے بنگلہ بنا دوں۔ بے چارے خادم اعلیٰ خود وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے عدالتیں بھگتتے پھر رہے ہیں، نیب کا شکنجہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ان کے بیوروکریٹ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں۔ ان کا خود حال اس بادشاہ جیسا ہے جو صرف نام کا بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھی کہتے پھرتے ہیں، بادشاہ یار اک گولڈ لیف تے پھڑی لیا۔
شاید جمہوریت کی ایسی نادر مثال کہیں نہ ملے، جہاں عوام کو انصاف دینے کے ذمہ دار خود پیشیاں بھگتتے پھر رہے ہوں بلکہ اشتہاری ہوں اور عدالتوں پر عدم اعتماد کر رہے ہوں۔ جہاں کے حکمرانوں کو عدالتوں اور ان کے انصاف پر یقین نہ ہو، وہاں 20 کروڑ عوام کہاں جائے۔
ہم بس ایک لاقانون سے معاشرے میں پھر رہے ہیں۔ قسم سے یہ باسٹھ تریسٹھ کر ہاتھ جوڑ کر بوتل میں بند کر دینا چاہئے، اگر اس پر عمل ہوگیا تو حکمران کیا اور عوام کیا سب چین، جاپان سے منگوانے پڑیں گے بلکہ فیصلے کرنے والے بھی ہمیں کسی ملک سے درآمد کرنے پڑیں گے۔
یہ دو نمبری کا معاشرہ ہے۔ ٹھیلے پر دوانہ بیچنے والے اس میں لال رنگ کا انجکشن فٹ کرتا ہے، گوشت والا گوشت میں اتنا پانی چھڑکتا ہے کہ وہ وزنی ہوکر پھر سے زندہ ہو جائے۔
اوپر سے نیچے تک آوے کا آوہ ہی بگڑا پڑا ہے۔ کون ہے جو گریبان کھول کر کہے کہ وہ صادق اور امین ہے۔ اس قوم اور اس کے ٹھیکیداروں نے قائداعظم کی امانت میں خیانت کی، چھینا جھپٹی، لوٹ کھسوٹ، غیر جمہوری روئیے اور ووٹ کی توہین سے ملک دولخت ہوا۔آج منظور پشتین، جئے سندھ، بلوچ بھگوڑے، سرائیکی وسیب کے چکر میں انارکی پسند، مذہب کی آڑ میں گندی سیاست چمکانے والے پھر سے امانت میں خیانت کرنے پر تیار ہیں، اور رہی بات صداقت کی تو اس کا سبق صرف کتابوں میں اچھا لگتا ہے، ورنہ اصل شکل یہ ہے ہماری کہ منتخب وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کو سیاسی کہہ کر اس خطاب کے حقائق کو مسترد کر دیتا ہے۔
یہ جتنے حلف اٹھانے والے اشرافیہ ہیں، حلف اٹھاتے ہوئے اس کی بے توقیری پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ قسم سے ایک جھوٹ پر صرف ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تو پوری قوم ٹنڈا ہو جائے، اغیار سے کیا خود سے ہاتھ ملانے کے قابل نہ رہے۔سنسان سڑک پر آدمی نے چاقو نکال کر سامنے والے کو کہا، نکال دو جو ہے۔ اس نے جیب سے پستول نکال کر کہا ہن توں کڈ دے جو وی تیرے کول اے۔ یہی آج کا چلن ہے۔ ڈاڈے کے ستاں ویاں داسو ہے، لیکن کب تک آخر کب تک یہ نظام چلے گا۔
ریاست ماں ہوتی ہے، ماں کروڑوں بچوں کو بھوکا مرتے، بے روزگار ہوتے، سسکتے کیسے دیکھ لیتی ہے۔ خدارا اس دھرتی پر رحم کرو۔ اپنے اقتدار کی جنگ میں اسے ایسا نہ بناؤ کہ یہ رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔عمران خان آج لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی فوج اور مسلم لیگ (ن) کے بھگوڑوں کے ساتھ وہ نئے پاکستان کا اعلان کریں گے۔ مینار پاکستان میں بجلی کی ترسیل میٹروں سے ہو رہی ہے یا کنڈوں سے، سب چلے گا۔
آخر نیا پاکستان بن رہا ہے، سب کو مبارک ہو۔ جیلر بولا تمہیں کل پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ سنتا سنگھ بولا فیر کدواتارو گے، میں کل ہور وہی کم کرنے نیں (پھر کب اتارو گے، میں نے کل اور بھی کام کرنے ہیں) خان صاحب پلیز کل جلسہ جلد ختم کر دیجئے گا، میرا گھر مینار پاکستان کے سامنے ہے، جلسہ ختم ہوگا، سڑکیں کھلیں گی تو میں باہر نکل سکوں گا، مجھے اور بھی کام کرنے ہیں