آشنائی کا صلہ
کالم :- طارق حسین بٹ شانؔ
حدیبیہ ملز کیس کو کرپشن کی ماں کہنے والوں کو اس وقت انتہائی صدمہ سے دوچار ہونا پڑا جب سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے حدیبیہ ملز کیس کھولنے سے صاف انکار کر دیا۔دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے نیب حکام کو خوب جھاڑ پلا ئی اور انھیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ آپ کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر مقدمہ کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا جائے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں شہباز شریف ایک صاف اور شفاف سیاستدان بن کر ابھرے ہیں اور ان کی سیاسی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیاہے۔حدیبیہ ملز کیس شہباز شریف کو پھانسنے کیلئے ایک ایسا مقدمہ تھا جس کا میڈیا نے بڑا ڈھول پیٹا تھا اور شہباز شریف کی سیاسی زندگی کے خاتمہ کی پیشگوئی بھی کر دی تھی۔شیخ رشید احمد تو جوشِ مسرت میں آسمان کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اس مقدمے کی شنوائی سے شریف خاندان کاسیاسی میدان سے خاتمہ ہوجائیگا۔یہ سچ ہے کہ حدیبیہ ملز کیس ایک انتہائی پچیدہ مقدمہ تھا جس سے شریف خاندان کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا تھا لیکن عدالتِ عظمی کے انکار نے مخالفین کے ساری خوا ہشوں پر اوس ڈال دی ہے۔سب سے زیادہ تکلیف شیخ رشید احمدکو ہو ئی ے کیونکہ وہی اچھل اچھل کر شریف خاندان کو لکار رہے تھے اور انھیں سیاست سے بے دخل کرنے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔انھوں نے ایسے ہی سپنے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی دیکھے تھے اور سوئیس مقدمات میں بھٹو خاندان کی سیاسی موت کی پیشگوئی کر رکھی تھی لیکن ان کی خواہشات کے علی الرغم بھٹو خاندان آج بھی کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ ہے جبکہ شیخ رشید احمد تحریکِ انصاف کے چیرمین عمرن خان کی خوشنودی سے پارلیمنٹ کی واحد نشست حاصل کرنے کی آس لگائے ہو ئے ہیں۔شیخ رشید احمدکو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب حدیبیہ ملز کیس کی دوبارہ شنوائی کی درخواست خارج کر دی گئی۔دعوے توشیخ رشید احمد نے اور بھی بہت کر رکھے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر سکا کیونکہ سیاسی بساط بدل چکی ہے۔ ان کی جانب سے مسلم لیگ(ن) میں پھوٹ، ستر ارکانِ اسمبلی کا فارورڈ بلاک اور اسمبلی تحلیل جیسے کئی اعلانات شامل تھے جو روز ٹی وی کی زینت بنتے تھے لیکن سب پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے جس سے اپوزیشن پر مایوسی طاری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شر؎یف خاندان پانامہ کیس کی وجہ سے انتہائی دباؤ میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کواپنی نا اہلی کی وجہ سے میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نامزد کرنا پڑا ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن میاں محمد نواز شریف نے حالات کا بہتر تجزیہ کر کے ایک انتہائی زیرک فیصلہ کیا۔ان کے اس فیصلے نے پوری سیاسی بساط کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔میاں محمد نواز شریف جارحانہ اندازِ سیاست کا علم اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف مصالحانہ اندازِ سیاست کے علمبردار ہیں۔میاں برادران دو دھاری تلوار کی مانند ہیں۔ جہاں جارحانہ انداز سے کام چلانا ضروری ہوگا وہاں جارحانہ انداز اپنایا جائیگا اور میاں محمد نواز شریف اپنا کام دکھائیں گے لیکن جہاں مصلحت سے کام لینا ضروری ہو گا وہاں پر میاں شہباز شریف کو سامنے لایا جائیگا اور اپنا الو سیدھا کر لیا جائیگا۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے زبردست بوسٹ ملا ہے کیونکہ ان کی امانت ود یانت پر سپریم کورٹ نے مہر ثبت کر دی ہے۔ان کیلئے اب عوام کو یہ باور کروانے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ وہ وزیرِ اعظم بن کر ملک میں شفافیت کا نظام قائم کریں گیاور عدل و انصاف کو یقینی بنائیں گے۔ عمران خان پہلے ہی عوام کے اذہان میں ایماندار اور دیانت دار انسان کا امیج رکھتے ہیں۔لوگوں کو ان کی ذات سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔انھوں نے نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر عوام کے اندر امید کی شمع روشن کی ہے۔عوام کرپشن کے بوسیدہ نظام سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں لیکن انھیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ چند چہرے جماعتیں بدل بدل کر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں لہذا تبدیلی کا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے۔ایسے لوٹوں کے ذہن میں چونکہ ذاتی مفادات کا سودا سوار ہو تا ہے اس لئے ملک پرانی ڈگر پر ہی محوِ سفر رہتا ہے اور یوں تبدیلی کی ہوا اپنا رنگ جمانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے عوام کے اذہان میں ایک نئے پاکستان کا تصور راسخ کیا ہے اور ان کی راہنمائی ایسی منزل کی طرف کی ہے جس میں کرپشن اور لوٹ مار کا خا تمہ اولین ترجیح بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود ان کیلئے مسلم لیگ(ن) کو پنجاب میں چیلنج کرنا ایک بہت پڑا چیلنج ہے۔ وہ اس چیلنج سے عہدہ براء ہو جائیں گے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔عمران خان نے جس طرح پاکستانی سیاست میں اپنا مقام بنایا ہے وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودگی میں ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنا واقعی مشکل کام تھا لیکن عمران خان کے عزمِ مصمم نے یہ کرشمہ کردکھا دیا۔جلسے جلوسوں اور احتجاجی سیاست نے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا جس سے وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو کھلا چیلنج دے سکیں۔انھوں نے نئے ووٹر ز کو متاثر کیا اور ایک ایسے طبقے کو جو سیاست کی آلودگیوں سے خود کو دور رکھتا تھا اسے قومی دھارے میں شامل کیا۔نئے پاکستان کے نعرے میں طمطراق اور جوش و جذبہ اسی نئے طبقے کی شمولیت سے پیدا ہوا۔لیکن کیا یہ نیا طبقہ نئے پاکستان کے نعرے کو حقیقت کا لباس پہنا سکتا ہے ابھی تک یقین کی سرحدسے کافی دوری پر ہے۔جو ش و جذبہ موجود ہے اور یہ عوامی خواہش بھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اور تنظیمی صلاحیت اس نعرے کو حقیقت نہیں بننے دے گی۔پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے اور سر توڑ کاوشوں کے باوجود اس گڑھ میں عمران خان کی نقب زنی ابھی ادھوری ہے۔،۔
میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب تصور ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انھیں کافی پسند کرتی ہے۔۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کے شب خون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے انھیں اپنی حکومت میں انتہائی اہم عہدے کی پیش کش کی تھی لیکن شہباز شریف نے ہر قسم کی پیشکش کو اپنے بھائی سے وفا داری کی خاطر ٹھکرا دیا تھا۔شریف برادران میں جس قسم کی محبت ہے وہ سیاست میں بہت کم دیکھی گئی ہے۔ میڈیا نے اس محبت کو شک و شبہات کی نذر کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن محبت کی اس زنجیر کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی جو ان دونوں بھائیوں کی یکجہتی کی علامت ہے۔دونوں بھائیوں میں اب بھی مثالی اتحاد ہے اورشائد یہ اسی مثالی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کی بجائے میاں شہباز شریف کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نامزد کیا ہے۔میاں شہباز شریف کی نامزدگی تحریکِ انصاف کیلئے اعصاب شکن خبر ہے کیونکہ جو اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوتا ہے وہی اقتدار کی مسند پر برا جمان ہو تا ہے۔عمران خان کیلئے اپنے مزاج کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرنا اور ہمہ وقت اس کی ہاں میں ہاں ملانا آسان نہیں ہے۔وہ اپنی تند طبعیت کے باعث اسٹیبلشمنٹ کو بھی ٹھینگا دکھا سکتے ہیں لہذ اسٹیبلشمنٹ ان پر اندھا اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے آزمائے ہوئے گھوڑے ہیں لہذا اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد کر سکتی ہے۔۸۱۰۲ کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا نرم گوشہ میاں شہباز شریف کی کامیابی کی کلید ہو گا۔تحریکِ انصاف کو خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ میاں شہباز شریف کی نامزدگی سے ان کا بنا بنایا کھیل بگڑ سکتا ہے۔پی پی پی پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ رہی ہے لہذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے دل میں جگہ بنانے سے قاصر ہے۔بلا ول بھٹو زرداری کیلئے اپنی کم عمری کی وجہ سے اقتدار کا سنگھاسن ابھی بہت دور ہے۔پاناما لیکس کے بعد تحریکِ انصاف کیلئے اقتدار کا ہما بہت نزدیک محسوس ہو رہا تھا لیکن میاں شہباز کی نامزدگی کے بعد وہ بہت نظر آ رہا ہے۔ اب پی ٹی آئی کیلئے پنجاب کا مورچہ فتح کرنا آسان نہیں رہاکیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ہاتھایک ایسے کندھے پر رکھ دیا ہے جن سے ان کی آشنائی بہت پرانی ہے۔،۔