نیوز وی او سی

آئینِ جواں مردا ں

کالم:- طارق حسین بٹ شانؔ (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال
۳۱ اکتوبر کو نیب عدالت میں جوہوا انتہائی شرمناک ہوا۔مہذب معاشروں میں عدالتوں کا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشرہ جنگل کا روپ دھار لیتا ہے۔جو قوم منصفوں کا احترام نہیں کرتی وہ مٹ جایا کرتی ہے۔منصفوں کے فیصلے انصاف کا بھلے ہی خون کرتے رہیں لیکن ان کی اتھاڑتی کو تسلیم کرنا ہی انسانیت کا حسن ہوتا ہے۔منصف اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کسی مخصوص مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ وہ متعلقہ فریقوں کی توقعات کے مطابق ان کے ساتھ انصاف بھی کر سکیں۔منصف جو کچھ سمجھ پاتا ہے اور جس طرح کی اس کے سامنے دستا ویز رکھی جاتی ہیں اور جس طرح کے گواہ پیش کئے جاتے ہیں منصف کا فیصلہ اسی کا عکاس ہو تا ہے۔فیصلہ میں وکیل کے دلائل اور گواہوں کی گواہی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔کبھی کبھی منصفوں کو ریاستی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی کبھی انھیں ڈکٹیٹروں کے دھمکیوں کو جھیلنا پڑتا ہے،کبھی کبھی حقائق اتنے پچیدہ ہوتے ہیں کہ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ نہیں پاتے۔ان کی نگاہ کبھی کبھی وہ تصویر دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے جسے سائل انھیں دکھانا چاہتا ہے۔کبھی کبھی وہ قانون کی اس شق کو اپنے فیصلہ کی بنیاد بنا لیتے ہیں جو انتہائی منتازعہ اور کمزور ہوتی ہے۔ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ میدانِ جنگ کے بعد سب سے بڑی نا انصافی کی جگہ جج کی عدالت ہوتی ہے۔کبھی کبھی جھوٹ جیت جاتا ہے کبھی کبھی سچ کی موت ہو جاتی ہے کبھی کبھی بے گناہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتا ہے،کبھی کبھی قاتل قانون کو دھوکہ دے جاتا ہے،کبھی کبھی امارت جیت جاتی ہے،کبھی کبھی غریب بے بسی و لاچاری کی تصویر بن جاتا ہے اور کبھی کبھی اثرو رسوخ اور جاہ و حشمت من پسند فیصلہ حاصل کر لیتی ہے لیکن اس کے باوجود عدالت کی حرمت کو پوری دنیا توقیر کی نظر سے دیکھتی ہے۔بے شمار تحفظات کے باوجود منصفوں کے فیصلوں پر عمل در آمد میں کسی ہچکچاہٹ کا مطاہرہ نہیں کیا جاتا کیونکہ اس طرح سے ہی معاشرہ کی یکجائی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔پاکستا ن کی ستر سالہ تاریخ میں بے شمار واقعات ایسے ہوئے جھنیں فیصلہ لکھنے والوں نے خود جبر اور دباؤ کا نتیجہ قرار دیا لیکن اس کے باوجود حتمی فیصلے کیلئے عدلیہ کی زنجیر ہی کھٹکھٹائی جاتی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کا مقدمہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس میں عدلیہ نے اپنے وقت کے مقبول ترین قائد کا عدالتی قتل کیالیکن پی پی پی پھر بھی عدالتوں میں پیش ہوتی رہی۔اانصاف کا طالب ہونا پی پی پی کا حق تھا اور اسے انصاف دینا منصفوں کی ذمہ داری تھی۔کیا منصفوں نے اپنا فرض احسن طریقے سے سر انجام دیا تاریخ کے صفحات اس کی گواہی دینے کیلئے کافی ہیں؟ہر وہ منصف جس نے انصاف کا خون کیا تاریخ نے اس کے کردار کا خون کر دیالیکن ہر وہ منصف جس نے انصاف کا علم بلند کیا تاریخ نے اسے ہیروشپ کی مسند سے نوازا۔اعمال کا میزانیہ تاریخ ہے اور ہمیں سارے منصفوں کے اعمال کو تاریخ کے حوالے کرنا ہو گا کیونکہ تاریخ ہی سب سے بڑی منصف ہے۔میاں محمد نواز شریف کے معاملے میں ۸۲ جولائی کا جو فیصلہ آیا وہ بھی انتہائی متنازعہ ہے لیکن کیا اس سے عدلیہ کے تقدس کو اپنے پاؤں تلے روندھ دیا جائے؟اگر ایک فیصلہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف آیا ہے تو جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے منہ زور گھوڑے تھے تو کئی فیصلے ان کے حق میں آئے تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ طیارہ سازش کیس میں انھیں جو سزا ہوئی تھی اس پر ان کی اپیل کئی سالوں کے بعد سنی گئی تھی جس کی قانون اجازت نہیں دیتا تھالیکن عدالت نے پھر بھی انھیں موقعہ فراہم کیا اور ان کی اپیل سنی کیونکہ وہ ملک سے باہر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔اسٹیبلشمنٹ اس وقت پی پی پی کی مخالف تھی اور میاں محمد نواز شریف ہی ان کی واحد امید تھے لہذا اس امید کو زندہ رکھا گیا۔ اب حالات بدل چکے ہیں لہذافیصلہ بھی بدل گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر ۸۲ جولائی کے فیصلہ کا ناقد ہوں کیونکہ اس کی اسا س کمزور ہے۔ایک منتخب وزیرِ اعظم کو یوں نا اہل قرار دینا انصاف کا قتل تھا۔اس فیصلے کے پسِ منظر میں کیا کچھ تھا؟ ایسا فیصلہ کیوں آیا؟ اس کے مضمرات کیا تھے؟ اس کے پسِ پردہ کون سے عوامل کار فرما تھے؟ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جسے میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ابھی تک ہم سارے اپنی اپنی پسند و نا پسند کے حصار میں قید ہیں اور اس فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اس فیصلہ کو تاریخ کے حوالے کردیں تا کہ تاریخ آنے والے زمانوں میں اس کا آخری فیصلہ سنائے۔،۔
کسی بھی فیصلہ پر تنقید کرنا عوام کا حق ہے۔وہ ہر فیصلے کو اس کے میرٹ اور ڈی میرٹ کے ساتھ دیکھتے ہیں تا کہ فیصلے میں جو سقم رہ گئے ہیں انھیں اگلی دفعہ نہ دہرایا جا سکے۔تنقید اور مکالمہ ہمیشہ بہتر راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ تنقید کسی مخصوص ادارے پر نہیں ہوتی بلکہ ان منصفوں پر ہوتی ہے جو حقائق کو نظر انداز کر کے فیصلہ کرتے ہیں۔جن منصفوں کے من میں تعصب اور عناد ہوتا ہے اور جو دباؤ کا سامنا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ان کے فیصلے ان کے ادارے کے وقار میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے ان کے ادارے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میں نے ۸۲ جولائی کے فیصلہ پر جوکچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی تاریخ اور عدلیہ کے عمومی رویہ سے اخذ کر کے لکھا ہے۔میری تحریروں کا نقطہ ماسکہ نہ تو ادارے کی تضحیک تھا اور نہ ہی اس کی حرمت کو کم کرنا تھا بلکہ میری تحریر وں کا لبِ لباب یہ تھا کہ منصفوں کیلئے کوئی اپنا اور غیر نہیں ہوتا،کوئی دوست اور دشمن نہیں ہوتا،کوئی ہمدرد اور بیگانہ نہیں ہوتا،کوئی مجرم اور بے گناہ نہیں ہوتا،کوئی صادق اور دروغ گو نہیں ہوتا،کوئی امین اور بد دیانت نہیں ہوتا کوئی چور اور مجرم نہیں ہوتا بلکہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوتے ہیں اوراسے ہی عدل کی روح کہتے ہیں۔عدلیہ کے بے شمار فیصلوں پر تنقید کے جلو میں عدلیہ کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چائیے۔عدلیہ کا احترام اور اس کا تقدس ہر حال میں مقدم ہونا چائیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ا نصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ جرات و بسالت کے وصف سے سرفراز ہوں۔ان کے اندر کسی کاخوف اور ڈر نہ ہو۔بڑے فیصلے بہادروں کی شان ہو تے۔کیا بزدل کبھی تاریخ ساز فیصلے کر سکتے ہیں؟وہ جو خوف سے پھڑ پھڑاتے ہوں وہ خاک فیصلے کریں گے۔مفاد پرستی کے اسیر کبھی بڑے منصف نہیں بن سکتے۔بڑا جگرہ بڑا فیصلہ۔بڑا دل گردہ تاریخ ساز فیصلہ۔حاکمِ وقت کو بہادروں اور صاحبِ ایمان ہی للکار سکتے ہیں۔جن کی سانسیں مفاد کی گرہوں میں قید ہوں وہ بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔جن میں اپنی کم فہمی کے ساتھ ساتھ جرات کا فقدان ہوانھیں عدلیہ جیسے پر شکوہ اور معزز عہدے سے ہٹ جانا چائیے۔جن کے قلم سے لکھے گئے فیصلہ پر پوری قوم دیدہ دل فرشِ راہ کرتی ہو وہی انصاف کا خون کر دیں تو پھر اس قوم کی بے کسی کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں ہونا چائیے۔عظیم فرنسیسی دانشور والٹئیرنے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ شخص جو میرا سب سے بڑا مخالف ہے میں اس کی آزادی اور رائے کے احترام کیلئے سب سے پہلے آواز اٹھا ؤں گا اور اگر اس کی آزادی کی خاطر مجھے جیل بھی جانا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا کیونکہ آزادی اس کا بنیادی حق ہے۔انصاف کی مسند پر بیٹھے والوں کو اسی طرح کا اعلان بھی کرنا چائیے اور اس پر عمل پہر ہ ہو کر دکھانا بھی چائیے تبھی یہ معاشرہ عدل و انصاف کا منظر پیش کریگا وگرنہ عدالتواں میں ہلڑ بازی معمول بن جائیگی اور قوم شرمندگی سے اپنا منہ چھپاتی رہے گی۔ علامہ اقبال جیسا فلسفی قدم قدم پر ہماری راہنمائی کرتا ے یہ الگ بات کہ ہم اس کی راہنمائی اور دانش کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اسے شمشیرو زنجیر کا شاعر سمجھ کر اس کی بات کی روح تک پہنچنے کو کوشش نہیں کرتے۔اس نے اس سارے منظر کو ایک شعر میں سمو کر رکھ دیا ہے۔پڑھیے اور وجد میں آ جائیے۔،۔
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باقی ۔،۔ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رو باہی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button