پاکستان

آئندہ انتخابات میں ایک طرف انتشار اور دوسری طرف ترقی کی سیاست کھڑی ہوگی، وزیر قانون پنجاب

فیصل آباد: وزیرِقانون پنجاب رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ طاہرالقادری کے جلسے میں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے والے سارے لعنتی اکٹھے تھے۔
فیصل آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیرقانون راناثناءاللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں انتشار کی سیاست کررہی ہے، افراتفری، انتشار اور عدم استحکام ان کا ایجنڈا ہے، ساڑھے 4 سال میں ان سب کے پاس کوئی ایشو نہیں تھا، لاہور میں ہونے والے جلسے میں بھی انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو موضوع بنا کر اپنی اپنی سیاست چمکائی اور جلسے میں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے والے سارے لعنتی اکٹھے تھے، ان کا کام ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دینا ہے۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ جلسے میں عمران خان اور شیخ رشید نے پارلیمنت پر لعنت بھیجی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مال روڈ کی خالی کرسیاں ان پر لعنت بھیج رہی تھیں جب کہ ان کے اس بیان کے جواب میں اب 21 کروڑ عوام ان پر لعنتیں بھی رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین اور پارلیمنٹ ہمیشہ سرخرو ہوگی، اس ملک میں قانون و آئین اور جمہوریت بھی رہے گی، شیخ رشید کو چاہئے کہ وہ اب اپنی توجہ انتخابات پر دیں ابھی ان کے پاس وقت ہے، اگر اس بار انہیں عوام نے مسترد کردیا تو انہیں دھاندلی کا شور مچانے کا بھی موقع نہیں دیں گے، 2018 کے انتخابات میں ایک طرف انتشار اور دوسری طرف ترقی کی سیاست کھڑی ہوگی خیر کی قوتیں کامیاب ہوں گی اور شر وانتشار کی قوتیں ناکامی کا منہ دیکھیں گی
سپریم کورٹ کے حمزہ شہباز کے گھر کے باہر سے بیرئیرز ہٹانے کے حکم پر وزیرقانون کا کہنا تھا کہ کوئی عام شہری رکاوٹیں یا بیریئرز نہیں لگا سکتا یہ کام پولیس کا ہے، کسی کی جان کو خطرہ ہوتو پولیس رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہے اور موجودہ وقت میں شریف خاندان کے ہرفرد کی جان خطرے میں ہے اگر چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو اس حوالے سے تمام رپورٹیں عدالت میں پیش کرسکتے ہیں۔ حمزہ شہباز کے حوالے سے چیف جسٹس کے ریمارکس پر افسوس ہوا، ایسے ریمارکس سیاستدانوں کے بارے میں نہیں ہونے چاہئے۔
زینب قتل کیس کے حوالے سے رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ کیس کی تفتیش تمام ایجنسیاں کررہی ہیں جن میں پولیس سمیت سول و عسکری ایجنسیز بھی شامل ہیں، اب تک 800 سے زائد افراد کا ڈی این اے لیا جاچکا ہے ہمیں پوری امید ہے کہ زینب کے قاتل درندے کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گالیکن اس کے لئے پولیس کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button